• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے معاشی حب کراچی میں شدید بارشوں اور ان سے پیدا ہونے والے حالات کا اندازہ وزیراعلیٰ سندھ کی عیدِ قربان کے روز کی جانے والی اس اپیل سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر زیادہ ضروری نہ ہو تو آج قربانی نہ کریں۔ وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی کے مطابق کراچی میں کرنٹ لگنے کے واقعات میں 30سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، پاک فوج، رینجرز، پولیس اور ٹریفک پولیس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے یہ گلہ بھی کیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ کے الیکٹرک کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ کراچی بلدیہ عظمیٰ (کے ایم سی) نے بجلی تنصیبات کے گرد پانی کی نکاسی کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا جبکہ متاثرہ علاقوں میں بجلی بحالی کی کوششوں میں بھی تعاون نہیں کیا گیا۔ کے ایم سی نے کے الیکٹرک کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پانی نکالنا بلدیہ عظمیٰ کراچی کا نہیں، ڈی ایم سی کی ذمہ داری ہے۔ یہ ساری صورتحال اربابِ اختیار اور متعلقہ محکموں کی جانب سے ذمہ داری دوسروں کے کاندھوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی غماز ہے۔ کوئی بھی شہر میں سیلابی صورتحال اور کرنٹ سے ہلاکتوں کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں۔ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کو اور صوبائی حکومت وفاق کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ کے الیکٹرک کے ایم سی اور کے ایم سی ساری ذمہ داری ڈی ایم سی پر ڈال رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کل تک کراچی کے حقِ ملکیت پر جھگڑنے والوں نے کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا ہےاور اس ساری مشق میں نقصان محض کراچی کے عوام کا ہو رہا ہے جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میں ہی قوموں کا اصل امتحان ہوتا ہے جہاں ہر کسی کو آگے بڑھ کر دوسروں کا بھی بوجھ ڈھونا ہوتا ہے۔ دریں صورتحال محکمہ موسمیات نے شہر قائد میں ایک بار پھر بارشوں کی پیشگوئی کی ہے، ایسے میں ضرورت ہے کہ الزام تراشی کے بجائے تمام متعلقہ ادارے مل کر کام کریں، وفاق، صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان ورکنگ کو آرڈی نیشن قائم ہونی چاہئے تاکہ سب مل کر روشنیوں کے شہر کی رونقوں کو بحال کر سکیں۔

تازہ ترین