• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی چینل’’این ڈی ٹی وی‘‘کےمالکان پرغداراورپاکستانی ایجنٹ کےالزامات

لاہور(صابرشاہ) اگرچہ حکومت نواز بھارتی میڈیا کےایک حصے کا دعویٰ ہے کہ معروف بھارتی ٹیلی ویژن چینل ’’این ڈی ٹی وی‘‘ کےشریک بانی پرونےلال اوراُن کی بیوی رادھیکارائےکوممبئی ایئرپورٹ پربیرونِ ملک پروازسےروک دیاگیاکیونکہ ایک درخواست پرسنٹرل بیوروآف انوسٹی گیشن دونوں کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کررہاہے، لیکن یہ بالکل واضح ہےکہ سرحد کے پار یہ آزاد میڈیاہائوس یقیناً مودی حکومت کی توقعات پر پورانہیں اترا، خاص طورپر مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بےچینی پر کی گئی رپورٹنگ کے حوالے سے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’این ڈی ٹی وی‘‘ مقبوضہ کشمیر پرقومی جذبےکےساتھ ہربھارتی حکومت کےموقف کی حمایت کرتا ہے لیکن بعض اوقات یہ بھارتی فوج کی جانب سےکشمیریوں پر کیے گئےمظالم کوبھی دکھاتاہے، یہ ایسی بات ہے جس نے مودی حکومت کو ناراض کیاہوگا، جو اس وقت مقبوضہ کشمیرکےخصوصی سٹیٹس کوختم کرنےکےخلاف کچھ بھی سننا یا پڑھنا نہیں چاہتی۔ پاکستان میں یہ صورتحال کئی دہائیوں سے ہے، جہاں آزادصحافیوں اورمیڈیامالکان دونوں کوغدار، را کےپٹھواور سی آئی اےکےایجنٹ وغیرہ قراردیاجاتارہاہے، ایسا مختلف حکومتوں کی جانب سےمختلف ادوارمیں کیاجاتارہاہے، اب این ڈی ٹی وی کےمالکان کوسوشل میڈیا پرپاکستانی سروگیٹس قراردیاجارہاہے۔ اور وہ وقت دور نہیں جب ہم مخصوص بھارتی سیاستدانوں خاص طورپر وہ جو اقتدارمیں ہیں، کی جانب سے سنیں گے کہ وہ این ڈی ٹی وی کے مالکان کودھوکہ باز اور، پیٹھ میں خنجرگھونپنےوالے، دوغلےلوگ، نمک حرام اور حتٰی کہ سیطان اور سانپ قراردیں گے۔ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں این ڈی ٹی وی کے مالکان پرونےرائےاور دادھیکا رائےکو بیرونِ ملک پرواز سے روکےجانےکےبعد، یہاں ایک اور بھارتی میڈیا ہائوس کی کوریج بھی پیش ہے۔ انڈیاٹوڈےنےرپورٹ کیا:’’ذرائع کےمطابق سنٹرل بیوروآف انوسٹی گیشن کی ایک درخواست کے مطابق دونوں کو ایئرپورٹ انتظامیہ نے پرواز سے روک دیا۔ پرونےرائےاوررادھیکارائےسےمنی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔ واقعےپرایک بیان جاری کرتےہوئےمیڈیا کمپنی نےاسے’’میڈیافریڈم سے مکمل بغاوت‘‘ قراردیا۔ معروف میڈیاہائوس نےمزید کہا:’’ این ڈی ٹی وی نےٹویٹس میں کہا،بنیادی حقوق سےمکمل بغاوت میں این ڈی ٹی وی کےمالکان رادھیکااور پرونےرائے کو ملک چھوڑنےسےروک دیاگیا۔‘‘ دونوں صحافیوں کےپاس16تاریخ کی بھارت واپسی کی ٹکٹ بھی تھی۔ انھیں جعلی اور بےنیاد کرپشن کیس پر بیرون ملک سفرسےروک دیاگیا، جیسے سی بی آئی نے شروع کیااور اسے دوسال قبل دائر کیاگیاتھا۔ یہاں ٹویٹرپرسرگرم ایک بھارتی گیتیکاسوامی کی ٹویٹس بھی پیش خدمت ہیں: یہ پہلی بار نہیں ہےکہ این ڈی ٹی وی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرواتے ہوئے خود کو رسواکیاہو۔ این ڈی ٹی وی اس معاملے پرنیوٹرل اور غیرجانبدارہونےکی بجائےکیوں زیادہ جذباتی ہے؟‘‘ ’’این ڈی ٹی وی کیوں اس حقیقت کو قبول نہیں کرتا کہ سوائے ان لوگوں کے جو عسکریت پسندی سےروزی کماتے ہیں، درحقیقت آرٹیکل 370ختم کرنے سےکشمیر میں لوگ خوش ہیں۔‘‘’’کس کو دشمن کی ضرورت ہے جب آپ جیسا میڈیا موجودہے۔‘‘ ’’این ڈی ٹی وی کے مالکان پرونے رائےاور رادھیکا رائے پر کیوں اعتماد کرنا چاہیئے؟‘‘’’این ڈی ٹی وی سے شہرت پانےوالے رادھیکااور پرونےرائے دونوں مبینہ طورپرمنی لانڈرنگ اور آئی سی آئی سی آئی بینک کے48کروڑ کےنقصان میں بینک فراڈ میں ملوث ہیں۔‘‘ اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی میڈیا مالک یا صحافی کو غدار کہاگیاہے ہو، جب بھی کوئی بھارتی حکومت کی اشاروں پرناچنا بند کردیتا ہے تونئی دہلی کی جانب سےاس پر غداری کا الزام لگایاجاتاہے۔ اکتوبر2016کو ایک نامور صحافی برکھادت کی کردار کشی کی گئی، ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے گئے۔ بی بی سی نیوز نے رپورٹ کیا:’’ پہلا پیغام جو بھیجا گیا وہ برکھا کی ٹویٹ تھی جس میں بھارتی ڈی جی ایم او کےبیان کا حوالہ دیاگیاتھا۔ تاہم ایسا دکھایاگیاتھاکہ برکھاپاکستانی ڈی جی ایم اوکو سرجیکل سٹرائیک کی اطلاع دے رہی ہوں۔ باقی پیغام یوں تھا،’’برکھا،پاکستانی ڈی جی ایم اوکواطلاع دینا غداری ہے۔‘‘ تمھیں سیکھنا چاہیئے،تم غدارہو؛ اگر’دیش بھگت ہارگئےتو وہ تمھیں تلاش کرکے قتل کردیں گے، تمھارے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔‘‘ اگرتمھاری ماں نے تمھیں دودھ پلایا ہے اور اگرتمھارا کوئی باپ ہے توایساکہنے کی جرات ٹویٹرپر نہیں بلکہ کسی گلی کے کونے پرکرو۔‘‘ برطانوی میڈیانےمزیدکہا:’’فیس بک پر اپنے ردعمل میں برکھا نے دھمکانے اور لوگوں کو خوفزدہ کرنےکوچالاک اورمجرمانہ مہم قراردیا۔‘‘ انھوں نے کہاکہ لیفٹ اور رائٹ دونوں نے انھیں ان کاکام کرنے پر نشانہ بنایا۔ برکھانےاس سے پہلے ’’نام نہاد سیکیولراور پاکستان نواز صحافیوں کےخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنےپر’’ٹائمز نائو‘‘کےایڈیٹراِن چیف ارناب گوسوامی پر تنقید کی تھی۔ اتور11اگست کو برکھا دت جو این ڈی ٹی وی کی ٹیم کا 21سال تک حصہ رہیں نے پاک بھارت دشمنی پردوبارہ ٹویٹ کیا۔ انھوں نے ٹویٹ کیا:’’ہم نے موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشنز کے بغیر کئی سال تک کشمیر سے رپورٹنگ کی۔ ہم خبر نہیں تھے۔ نئے رپورٹرزہمیشہ راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ فیلڈ رپورٹنگ کی بڑی مشکل ہے۔ ذرائع مواصلات پرپابندی کاشکار لوگ بنتے ہیں، ہم نہیں۔‘‘ ادریس الحق کی ماں جو لال بازار میں رہتی ہیں، جانا چاہتی ہیں کہ وہ محفوظ ہے اور 14اگست کو گھر واپس آئے گا۔‘‘ ایک ہفتے سے اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ انھیں ذیابطیس ہے اور وہ پریشان ہے۔ میں نے پہلے کہاتھا:آپ 370پرکسی بھی طرف ہوں لیکن یہ پابندی ختم ہونی چاہیئے۔‘‘ یہاں ان کے 3اگست2019 کوکیے گئے ٹویٹس پیشِ خدمت ہیں:’’جموں اورکشمیر میں جو ہورہا ہے اس پراعلیٰ افسران کےدرمیان پاک چین تعلقات کے حوالے۔ اندرونی بے چینی(یعنی کارگل)سےقطع نظرایڈوائزریز دی جارہی ہیں، ہماری توجہ اندر(35A)پرہے، تھیٹرباہر ہی ہوگا۔‘‘ لہذا ہم نے فرض کیاکہ اضافی فوجی ممکنہ ہنگاموں کے باعث ہیں جو آرٹیکل 35A کےبعد ہوں سکتے ہیں، کارگل کی طرح بھارتی حکومت کی جانب سے جو ایڈوائزری جاری کی گئی، اس سےپتہ لگتاہے کہ ایل اوسی وغیرہ پر دھیان دواوراس سےآرمی اورسی آرپی ایف کی تعیناتی سمجھ آتی ہے۔ اچانک سے ٹرمپ کی پیشکش یا نام نہاد ثالثی، افغانستان میں امریکاکا امن معاہدہ، اس سب کو جموں کشمیر میں ہونےوالے واقعات سے الگ نہیں کیاجاسکتا، جہاں زیادہ سے زیادہ میرا ماننا ہےکہ اندرونی معاملات سلگ رہے ہیں۔ سٹوری اور خرابی کی جڑباہرلگتی ہے۔‘‘ 1999میں پاک بھارت کارگل کی جنگ میں فرنٹ لائن پر رپورٹنگ کےبعد 47سالہ برکھاابھر کرسامنے آئی تھیں۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بظاہر سنسرشپ کا شکار میڈیا کے باوجود چند بھارتی صحافی جیسے برکھا دت تاحال حقائق دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں تک این ڈی ٹی وی کا تعلق ہے تو اس نے حال ہی میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدرراہول گاندھی کے حوالے سے کہاتھا کہ وزیراعظم مودی اور اُن کی حکومت کےکہنے کےباوجود وہ معاملے پر ’واضح‘نہیں ہیں۔ اس حوالے سے’’این ڈی ٹی وی‘‘ کی جانب سے نشر کی گئی رپورٹ میں کہاگیا: پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی نے کہا،’’ایک اجلاس میں کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اپنےنئے سربراہ کی تعیناتی کوجموں کشمیر سے آنے والی ’تشدد اور ہلاکتوں‘کی خبروں کے بعد ملتوی کردیاگیاہے۔‘‘ انھوں نے میڈیا کو بتایاکہ چند لمحے قبل ان کی والدہ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیاگاندھی کو کانگریس کا عبوری سربراہ تعینات کیاگیاہے۔ این ڈی ٹی وی نے مزیدکہا:’’تقریباً10بجے اجلاس سے آنے والے راہول گاندھی نے کہاکہ وادی سے آنے والی پریشان کن خبروں کے بعد ان کے پشروکا انتخاب روک دیاگیاہے۔ حالات کافی خراب ہورہے ہیں۔ وہاں تشدد کی خبریں ہیں لوگ مررہے ہیں۔ اجلاس میں ہم نے جموں کشمیر کی حالت پر پریزنٹیشن کیلئے اپناغوروفکر روک دیا۔ ‘‘ یہ امرقابلِ ذکر ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی اور وفاقی حکومت معاملے پر واضح ہو۔‘‘ لیکن مودی حکومت نہ صرف مقامی میڈیاہائوسز کے خلاف سخت گیر ہورہی ہے بلکہ یہ370کےخاتمےکےبعدعالمی طور پر معروف میڈیا ہائوسز جیسے بی بی سی پر بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات سے متعلق’’غلط‘‘ گمراہ کن خبریں دینے پر زور دے رہی ہے۔ بی بی سی نیوز کی جانب سے اس رپورٹ کےبعد بھارتی حکومت کا موقف سامنے آیاتھا:’’غیرمعمولی سیکورٹی لاک ڈائون کے باوجودسرینگرمیں ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا اور ان پر فائرنگ کی گئی، ان پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں۔ بھارتی حکومت کےردعمل میں بی بی سی نیوز نے یہ ٹویٹ کیا:’’بی بی سی اپنی صحافت کے ساتھ کھڑاہےاور ہم اِن الزامات کی مکمل طورپر تردید کرتے ہیں کہ ہم نے کشمیر میں واقعات کو غلط طورپر پیش کیا۔ ہم غیرجانبداری اور درست طورپرحالات کور کررہے ہیں۔ دوسرے براڈ کاسٹرز کی طرح ہم بھی کشمیر میں سخت حالات میں کام کررہے ہیں لیکن جو کچھ ہورہاہے ہم اسے دکھاتے رہیں گے۔ تحقیق سے پتہ لگتاہے کہ سالہاسال بہت سے بھارتی فلمی اداکاروں پر بھی پاکستانی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگے ہیں۔ ان میں نصیرالدین شاہ بھی شامل ہیں جنھوں نےدسمبر2018میں ہجوم کی جانب سے بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیاتھا۔ ان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اُترپردیش کے سیاستدان امیت جانی نے کہاتھا کہ انھوں نے نصیرالدین شاہ کیلئے ایک یکطرفہ ٹکٹ بک کرائی ہے۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے رپورٹ کیا کہ جان نے 14اگست کیلئے ایک ٹکٹ خریداہے جو شاہ کیلئے پاکستان کی آزادی کا دن ہے جو اس وقت ایک تنازع’لیودی کنٹری‘ کا سامنا کررہے تھے۔ قبل ازیں، آنجہانی اوم پوری، جو بھارت کے بالی وڈ میں ایک لیجنڈری شخصیت ہیں، وہ بھی سخت تنقید کی زد میں آئے تھے جب انھوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بیان دے کر اپنے ساتھیوں کو ناراض کردیاتھا۔ 4اکتوبر2016کوبھارتی فوج کی تذلیل کرنے اورپاکستانی اداکاروں کی حمایت کرنےپراوم پوری کے خلاف ایک غداری کا مقدمہ دائر کیاگیا۔ بعد میں ایک اوربالی وڈ سٹارسلمان خان کی جانب سے پاکستانی اداکاروں پر پابندی کی مخالفت کرنےپراوم پوری نے بھی پاکستانی اداکاروں کے حق میں بیان دیاتھا، انھوں نے کہاکہ پابندی سے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں اوم پوری نے کہاتھا، بھارت میں پاکستانی اداکار غیرقانونی طورپرکام نہیں کررہے ۔ انھوں نے مزید کہا:’’ اگر انھیں واپس بھیجاگیاتو بھارتی پرڈیوسرز جنھوں نے انھیں سائن کیاہے انھیں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑےگا۔ کس نے سپائیوں کو فوج میں شامل ہونے کاکہاتھا؟ کس نے انھیں ہتھیاراٹھانے کاکہا؟‘‘ انھوں نے یہ کہتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا مطالبہ کیا،’’ کیا آپ پاکستان اور بھارت کی دشمنی کو اسرائیل اور فلسطین کی طرح بنانا چاہتے ہیں یا کئی سال تک لڑنا چاہتے ہیں؟ کئی بھارتیوں کے رشتہ دار سرحد کے دوسری طرف ہیں، وہ کس طرح سےاپنے خاندانوں کےخلاف جنگ لڑسکتے ہیں؟ کئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے علاوہ فلم ساز اشوک پنڈت اور نامور اداکار انوپم کھیر اوم پوری کے خلاف سامنے آئے۔ 6جنوری 2017کو مبینہ طورپراوم پوری کی دل کےدورےکےباعث موت ہوگئی۔ ’انڈیا ٹوڈے‘نے رپورٹ کیا،’’ لیکن ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے انکشاف کیاکہ اُن کی موت طبعی وجوہات کے باعث نہیں ہوئی۔‘‘ تحقیق سے پتہ لگتاہے کہ کئی نیشنل میڈیا ہائوسز اورنامور صحافیوں کے خلاف بدنام کرنے کی مہم ملکی تاریخ میں پاکستان میں بھی شروع ہوئی۔ انھیں پاکستان مخالف عناصرکی طرح دکھایاگیا،جو مخصوص مفادات کیلئےبھارتی اورامریکی ایجنڈےکوفروغ دےرہےہیں۔ انھیں پاکٹ میڈیا ہائوسز کے ذریعےمتنازع بنایاگیااور جان بوجھ کر عام آدمی کو ان کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی لہذا ان کی زندگیوں اور کاروبارکو خطرے میں ڈالاگیا۔ فیض احمد فیض (1984-1911)، اثرورسوخ والے ایک دانشور، صحافی اور شاعرکو لیاقت علی خان کی حکومت نے ایک حکومت مخالف سازش سے جوڑدیاتھا۔ خفیہ طورپرچلنےوالے18ماہ کے ٹرائل کےبعدفیض احمد فیض کو آرمی کی جے اے بی برانچ سے سزا سنائی گئی اگرچہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سزاکم کردی گئی تھی۔ اس کیس میں وکیلِ استغاثہ ایک نامور بنگالی مسلم سیاستدان حسین شہیدسہروردی تھے، جو بعد میں 1957میں پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ بنیادی طورپر پاکستانی حکمران 1857کےبعد برطانوی سلطنت کی وراثت کی پیروی کررہے ہیں۔ 1857کی آزادی کی جنگ کے بعد ’’دوربین‘‘ اور سلطان الخبار‘‘ کےدومسلمان ایڈیٹرزکے خلاف کانونی کارروائی کی گئی اور ’’دہلی اردواخبار‘‘کےایڈیٹرمولوی باقرکو برطانوی حکمران پر تنقید کرنے پر گولی ماردی گئی۔ مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جو دو بھائی اور1947سے پہلےبھارتی مسلمانوں کے ہیرو تھے، پہلے انھیں 1914میں برطانوی حکومت نےترکوں کےدفاع میں ایک مضمون لکھنے پرجیل میں ڈالا گیا۔ بنیادی طورپر ’’تحریکِ خلافت کے دور میں یہ لندن ٹائمز کے جواب میں ایک مضبوط مضموط لکھاگیاتھا۔ مولانا ظفرعلی خان(1873-1956) ایک اعلیٰ درجے کےمصنف، شاعر،مترجم اور صحافی کو برطانوی الیٹ پر تنقید کرنےپرگرفتارکیاگیا اور جیل میں ڈالاگیا۔ بے شک ان پر بھی الزامات غداری اوربغاوت کےلگائےگئےتھے۔ انھوں نے لاہور سے ایک اخبار’’ڈیلی زمیندار‘‘ شروع کیاتھا، اس کی بنیاد ان کے والد سراج الدین احمد نے حیدرآباددکن میں رکھی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم1914-1919))کےدوران روزنامہ زمیندارکوجنگ سے متعلق کوئی خبرشائع نہ کرنے کاکہاگیاتھا۔ لہذا اسے عارضی طورپر بند کردیاگیا اور ظفرعلی خان کو ایک اور میگزین’’ستارہِ صبح‘‘ شروع کرنا پڑا۔ آغا شورش کشمیری1917-1975) )ایک نامور سکالر اور ہفتہ وار’’چیتن‘‘ کے چیف ایڈیٹر کو کئی بار جیل میں ڈالاگیا۔ انھیں پہلی بار 1953میں قادیانی مخالف تحری کےدوران گرفتارکیاگیاتھا۔ اس وقت جنرل شیر خان کو ایک تقریر کرنے پرغداری کے الزامات پر ہتھکڑیاں لگائی گئیں تو شورش کو بھی ڈیفنس آف پاکستان رولزکےتحت گرفتارکرلیاگیاتھا۔ جیسے ہی بھٹونے اقتدارسنبھالاانھوں نےنیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین اورپاکستان ٹائمز کے ایڈیٹرکو برطرف کردیا۔ ایوب دورکے ان کے مخالف الطاف گوہر جو اس وقت ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر تھے انھیں نظربند کردیاگیا۔ اردو ڈائجسٹ، زندگی اور پنجاب پنچ جیسے میگزین کے پرنٹرزاور ایڈیٹرزکو بھٹوحکومت کے خلاف احتجاج کرنے پرگرفتارکرلیاگیا۔ ’’حریت‘‘ اور جسارت جیسے اخبارات پرپابندی عائد کردی گئی اور ایڈیٹرز کو گرفتارکرلیاگیا۔لاہورہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کے چیلنج ہونے اورسماعت سے پہلے ہی ان پر فردِ جرم عائد کی گئی اور سزا دی گئی۔ نامور شاعرحبیب جالب اور معروف مذہبی عالم ابوالکلام آزاد کو بھی مختلف حکومتوں کی مخالفت کرنےپرجیل جاناپڑا۔ امریکا اور برطانیہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹرملیحہ لودھی پر 1992میں اس وقت کی حکومت نے بغاوت کا الزام لگایا کیونکہ انھوں نے ’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘ میں ایک جارحانہ نظم لکھی تھی، وہ اس وقت اخبار کی ایڈیٹرتھیں۔ ’’جیونیوز‘‘ کے سابق اینکرپرسن نجم سیٹھی خود پر اور دوسرے صحافیوں پرلگے غداری کے الزامات کے بارے میں کافی کچھ سکتے ہیں۔ 1999میں جب سیٹھی نے اس وقت کی حکومت کےسکینڈلز کوبی بی سی میں بےنقاب کرنے کی کوشش کی تو ان پر غداری کے الزامات لگے۔ سپریم کورٹ نے’’غداری‘‘ کےالزامات کو مسترد کیا اورانھیں ایک ماہ بعد بری کردیاتھا۔

تازہ ترین