• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی صحافی نے آرٹیکلز 370اور 35 کے خاتمے پر سوالات اٹھادئیے

کراچی (نیوز ڈیسک) معروف بھارتی صحافی کرن تھاپڑ نے آرٹیکلز 370 اور 35 کے خاتمے پر سوالات اٹھادئیے، ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکلز 370 اور 35 کے خاتمے سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اس عمل کو تسلیم کرنا کئی لوگوں کیلئے مشکل ہے، خود کو ’یونین آف اسٹیٹس‘ کہلوانے والے ملک کیلئے یہ محض خلاف قیاس نہیں بلکہ ممکنہ طور پر خود کو شکست دینے والا عمل ہے، الگ جھنڈا اور علیحدہ آئین رکھنے والے نگاس سے بھارت مذاکرات کر رہا ہے تو کشمیر کو ان خصوصیات سے محروم کرنا ناقابل تشریح ہے، کیا یہ سیکولر بھارت کو ہندو ریاست بنانا ہے؟ کیا کشمیر کو اس لئے لیا گیا ہے کیونکہ یہ مسلم اکثریتی صوبہ ہے؟ بھارتی صحافی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے جب مودی سرکار نے آرٹیکلز 370 اور 35 اے ختم کیا اور ریاست جموں اور کشمیر کی حیثیت ختم کرکے اسے دو ریاستی علاقوں (یونین ٹیرٹریز) میں تقسیم کیا تو اس وقت وہ اپنے بھتیجے وکرم کی شادی میں شرکت کیلئے لندن میں تھے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ اس فیصلے پر حیران ہوئے لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس یہ دیکھنے کا ایک بے مثال موقع ہے کہ بیرونی دنیا اس پیشرفت پر کس طرح کی رائے رکھتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کئی کیلئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس طرح کا عمل کرسکتی ہے۔ ان کے تین بڑے اندیشے ہیں۔ پہلا یہ کہ اسے وادی کی خصوصی شناخت کے انکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک ملک جو خود کو ’یونین آف اسٹیٹس‘ بیان کرتا ہے اس کیلئے یہ محض خلاف قیاس نہیں بلکہ ممکنہ طور پر خود کو شکست دینے والا عمل ہے۔ جیسا کہ زیادہ باخبر برطانویوں نے اشارہ کیا ہےکہ یہ منافقانہ عمل بھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارتی سرکار نگاس کے ساتھ عظیم خودمختاری پر مذاکرات کر رہا ہے جس کے پاس اطلاعات کے مطابق غالباً الگ جھنڈا اور علیحدہ آئین ہے، یہ ناقابل تشریح ہےکہ کشمیر کو ان خصوصیات سے محروم کردیا گیا ہے۔ دوسرا اندیشہ وہ طریقہ ہے جس سے ایسا کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کی شقوں کا استعمال آرٹیکل 367 میں ایک شق کے اضافے کیلئے کیا گیا ہےجو دستور ساز اسمبلی کی ترجمانی بطور قانون ساز اسمبلی کر رہا ہے اور اس آرٹیکل کو غیر فعال بنانے کیلئے استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس کا ارادہ بھارت کے آئینی سازشیوں کی جانب سے کیا گیا۔ یہ شعبدہ بازی کی علامت ہے۔ واقعی کئی برطانویوں کا ماننا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اس فسطائیت کو الٹ دے گی جسے وہ ڈھٹائی گردانتے ہیں۔ تیسرا اندیشہ اس ماحول سے نکلنا ہے جو مودی سرکار نے پہلے اور بعد میں پیدا کیا۔ سیاحوں اور زائرین کو فوری طور پر جانے کا کہہ دیا گیا، لینڈ لائنز، موبائل فونز اور انٹرنیٹ بند ہوگئے جبکہ سیکشن 144 سے بڑھ کر کرفیو تک کو موثر انداز میں پوری ریاست میں لاگو کردیا گیا۔ 9 تاریخ بروز جمعہ بی بی سی اور رائٹرز نے خبر دی کہ ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور سرکار نے آنسو گیس اور فائرنگ سے جواب دیا ۔ بھارتی سرکار نے ناراضگی کے ساتھ اس بات کی تردید کرتے ہوئے زور دیا کہ اس طرح کی اطلاعات درست نہیں۔ یوں چیلنج دے دیا گیا، بی بی سی کی جاری کی گئی وڈیو فوٹیج جو حتمی طور پر اس کی رپورٹس کو ثابت کرتی نظر آتی ہے وہ درست تھی۔ بہت سے لوگ سٹ پٹا گئے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ مودی سرکار جھوٹ بول رہی ہے۔ بالکل ایسا ہی اس وقت ہوا تھا جب پہلے پیلٹ گن کے زخمیوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ سرینگر میں سرکار نے زور دیا کہ وہ محض چند تھے اور شاذونادر ہی تھے۔ تاہم برطانوی میڈیا، بھارتی اخبارات اور ویب سائٹس کا حوالہ دیتے ہوئے، اس بات پر قائم ہے کہ وہ بہت زیادہ تھے۔ ایک بار پھر اگر معتبریت نہیں تو بھارتی ریاست کا خلوس شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ انہوں نے لکھا کہ آخر میں مجموعی طور پر ان تمام باتوں سے سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ برطانوی جانتے ہیں کہ یہ مودی سرکار کی منشور سے وابستگی ہے لیکن وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ 2014 میں بھی اتنا ہی سچ تھا۔ تو اب کیوں؟ اس مرتبہ جواب ہچکچاہٹ کے ساتھ دیا جاتا ہے لیکن تشویش بھی کم واضح نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ سیکولر بھارت کو ہندو ریاست بنانا ہے؟ کیا کشمیر کو اس لئے لیا گیا ہے کیونکہ یہ مسلم اکثریتی صوبہ ہے؟ تاہم ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ، مہاراشٹر اور گجرات، آندھرا پردیش اور تلنگانہ، پورے شمال مغرب کے ساتھ ساتھ وہ علاقے جنہیں شیڈولڈ علاقے نامزد کیا گیا ہے کیلئے خصوصی شقیں موجود ہیں۔ تو پھر آرٹیکل 370 ہی کیوں اتنا پریشان کن ہے اگر دیگر نہیں ہیں تو؟ یہ یقیناً سوال ہی ہیں۔ کرن تھاپڑ نے لکھا کہ جن سے بھی انہوں نے ملاقات کی وہ بمشکل ہی جوابات دینے کیلئے پراعتماد تھے۔ لیکن وہ حقیقت جس کے بارے میں ان سے پوچھا جارہا ہے وہ پریشانی کی بات ہے۔

تازہ ترین