• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نوازشریف پاکستان کے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں۔ ان کی سیاست کا بیج اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں بویا گیا اور وہی ایک تناور درخت بن گیا لیکن اس پس منظر کے باوجود اللہ کے فضل وکرم اور حالات نے انہیں پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا۔ 12/اکتوبر 1999ء کو وہ جس طریقے سے اقتدار سے نکالے گئے‘ اس کے بعد پاکستان میں کسی لیڈر کا زندہ بچنا ناممکن ہوتا ہے لیکن اللہ نے انہیں اس انجام سے بھی بچا لیا اور چند ماہ کی اذیت کے بعد انہیں سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔ ایک فوجی جرنیل کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی‘ مختصر جیل اور پھر طویل جلاوطنی نے میاں نوازشریف کی شخصیت کو بعض ایسی خوبیوں سے مزین کیا کہ جو پاکستان کے اکثر سیاسی قائدین کے ہاں ناپید ہیں لیکن بدقسمتی سے سعودی عرب میں قیام سے ان کی شخصیت میں موجود ایک خامی بھی مزید گہری ہوگئی، وہ یہ کہ ان کا شاہانہ مزاج مزید شاہانہ بن گیا۔ وطن واپسی کے بعد وہ عوام میں جانے اور کارکنوں سے براہ راست رابطہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ قریبی عزیزوں اور چند چالاک لوگوں کے ایک مخصوص ٹولے نے ان کو ہمہ وقت گھیرے میں لیا ہوتا ہے۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد میاں صاحب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن اس مخصوص ٹولے نے اپنے عدم تحفظ اور سازشی مزاج کی وجہ سے دیگر جماعتوں سے ٹوٹنے والے لوگوں کو ان کے قریب آنے نہیں دیا۔ یوں ان کی وہ مقبولیت کسی قالب میں نہ ڈھل سکی ۔ اللہ بھلا کرے عمران خان کا ‘ اپنے سونامی کے خوف کے ذریعے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے سیاسی غرور کو توڑ ڈالا اور چند دنوں کے لئے میاں صاحب نے بھی بادشاہت چھوڑ کر سیاست شروع کردی لیکن جونہی وہ خطرہ ٹل گیا تو وہ مخصوص ٹولہ پھر غالب آگیا اور میاں صاحب ایک بار پھر بادشاہت کی طرف جانے لگے ۔ یہ ٹولہ میاں صاحب کو باور کرارہا ہے کہ کچھ کریں یا نہ کریں‘ اگلے وزیراعظم وہی ہوں گے۔ وہ اپنی خوشامد کے ذریعے میاں صاحب کو ایک بار پھر سیاسی غرور میں مبتلا کررہے ہیں اور انہیں بتایا جارہا ہے کہ انہیں کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ‘ سب ان کے پاس آئیں گے ۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) قومی معاملات پر کردار بھی ادا نہ کرے ‘ اس کی قیادت سیاسی رسک بھی نہ لے اور اپنی زندگی کو بھی خطرے میں نہ ڈالے‘ وہ بہرصورت اگلے وزیراعظم رہیں گے۔ اب تو حالت یہاں تک آگئی ہے کہ پارٹی قیادت تماشائی بنی رہتی ہے اور پالیسیاں بھی یہ ٹولہ بناتا رہتا ہے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کے دھرنے نے سونامی کی طرح ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کو جگا دیا اور میاں صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کو رائے ونڈ طلب کیا جس کا سب اپوزیشن رہنماؤں نے توقع سے بڑھ کر مثبت جواب دیا اور ہر طرف سے اس اقدام کو سراہا جانے لگا لیکن چند روز بعد وہ بادشاہوں کی سرزمین کو روانہ ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے کسی کو بتایا کہ اس مشق کے بعد وہ چوہدری نثار علی خان سے رابطہ کررہے تھے لیکن تین دن کی کوششوں کے باوجود ان سے ان کی ٹیلیفون پر بات نہیں ہو پائی۔ اب یہ بادشاہت ہے یا سیاست؟ اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے خلاف مسلم لیگ(ن) اور ہم جیسوں نے اس بنیاد پر شور رکھا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور دھرنے کی بجائے قادری صاحب عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتے لیکن حیرت انگیز طور پر اس دھرنے کے صرف چند روز بعد چوہدری نثار علی خان نے اسی الیکشن کمیشن کے خلاف دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو مشورہ طاہرالقادری کو دیا جارہا تھا ‘ اس پر خود مسلم لیگ (ن) نے عمل کیوں نہیں کیا؟ اعلان یہ کیا گیا کہ یہ دھرنا اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا ہوگا لیکن اعلان سے قبل ان میں سے کسی کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی ۔ جیسے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ‘ چوہدری نثار علی خان جیسے سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے مزارعے ہیں ۔ اس منصوبے کا جو حشر ہوا ‘ اس سے نہ صرف دھرنے کے لفظ کی توہین ہوگئی بلکہ اپوزیشن کے اے پی سی کے نتیجے میں جو عزت کمائی گئی تھی‘ وہ بھی گنوادی گئی ۔ اس دوران طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی اور جن تین لیڈروں سے ضامن بننے کا مطالبہ کیا گیا ‘ ان میں ایک میاں نوازشریف بھی تھے لیکن ابھی میاں صاحب واپس لوٹے تھے اور نہ کسی پارٹی فورم نے فیصلہ کیا تھا لیکن اس مخصوص ٹولے کے بعض لوگوں نے اس پیشکش کو مسترد کرنا شروع کیا۔ واپسی پر میاں صاحب نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کو خوش آئند کہتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ سنجیدہ مذاکرات شروع کرے لیکن اپنے کسی کردار کے بار ے میں خاموش ہیں۔ یہ عاجز گزشتہ دس سال سے دہائی دے رہا ہے کہ طالبانائزیشن کے مسئلے کے حل میں اگر کوئی لیڈر سب سے زیادہ اور موثر کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ میاں نوازشریف ہیں لیکن وہ اور ان کے گرد جمع ہونے والا ٹولہ اس مسئلے کو سمجھنا چاہتا ہے اور نہ اس میں الجھنا چاہتا ہے۔ اس ٹولے نے میاں صاحب کو پنجاب تک محدود کردیا ہے اورلگتاہے کہ جب تک خاکم بدہن لاہور کی حالت پشاور جیسی نہیں ہوجاتی‘ یہ مسئلہ ان کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں ہوسکتا ۔ پہلے حامد کرزئی ان سے رول ادا کرنے کے مطالبے کرتے رہے اور اب خود پاکستانی طالبان نے ان کا نام لیا ہے لیکن مسلم لیگ(ن) کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم فوج کی ضمانت لے سکتے ہیں لیکن اگر وہ دونوں پہلے سے اختیار دے دیں تو پھر اس میں اس قیادت کا کیا کارنامہ ہوگا؟ لیڈر کا کام تو یہی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر دونوں پر دباؤ بھی ڈالے‘ دونوں سے اختیار بھی لے لے اور دونوں کو سمجھا بھی دے ۔ اگر دونوں فریق پہلے سے اختیار سرنڈر کرکے کسی کو ثالث مان لیں تو پھر یہ کام کوئی بھی کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میمو کے کیس میں فوجی قیادت نے اپنا اختیار مسلم لیگ (ن) کو دیا تھا یا جو وہ اس کیس کے دعویدار بنی ۔ اس سے پہلے جب مسلم لیگ (ن) پارلیمینٹ کے اندر اور قومی سلامتی کمیٹی میں پالیسی کی تشکیل میں حصہ لے رہی تھی تو کیا اس نے پہلے فوج سے اختیار لے لیا تھا۔ بعدازخرابیٴ بسیار لیکن اب بوجوہ اے این پی کی عقل ٹھکانے آگئی ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے لائحہ عمل طے کرنے اور قومی پالیسی سامنے لانے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کررہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ مبارک کام مسلم لیگ(ن) کرتی لیکن اب وہ اے این پی کی کانفرنس میں شرکت کیلئے بھی شرائط عائد کررہی ہے۔ کہتی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتی اس لئے اس کیلئے الگ سیشن رکھا جائے ۔ اب کیا یہ ایک قومی جماعت کا رویہ ہے؟ یوں تو اس جماعت کے وزیراعظم کے ساتھ کابینہ میں بھی وقت گزارا گیا۔ ان کے ساتھ پرویز مشرف سے وزارت کے حلف بھی لئے گئے ۔ اسی جماعت کے ساتھ تین سال تک پنجاب میں بھی مشترکہ حکومت چلائی۔ اس جماعت کے لوگوں کے ساتھ پارلیمانی کمیٹیوں میں بھی بیٹھا جاتا ہے لیکن اب جب پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے ایشو پر بات ہو رہی ہے تو عذر پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ ہم فرشتے ہیں اس لئے پیپلز پارٹی کے بدنام لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ حیران ہوں یہ سیاست ہے یا بادشاہت؟
تازہ ترین