• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ آزادیٔ کشمیر ماضی میں کبھی اس سطح پر نہ پہنچی تھی جہاں اب پہنچ چکی ہے۔ نریندر مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل370 اور 35اے کے خاتمے کے اعلان نے تنازع کشمیر کو جو طویل عرصہ سے عالمی بے حسی کے سبب سرد خانے میں پڑا تھا، پھر بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بقول نیو کلیئر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ راج ناتھ نے دھمکی دی ہے کہ اب تک تو ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنا ہی بھارت کی پالیسی ہے مگر مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی ایل او سی پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ نے بھارت کے عزائم عیاں کر دیئے کہ وہ جارحیت پر تلا بیٹھا ہے۔ بھارتی فائرنگ سے پاکستان کے تین جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی کےنتیجے میں 5بھارتی فوجی مارے گئے اور متعدد بنکر تباہ ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔ پاکستان پیشگی دنیا کو خبردار کر چکا ہے کہ بھارت جنگ چھیڑنے کے لئے پلوامہ جیسا کوئی ڈرامہ بھی رچا سکتا ہے، عالمی برادری کو اس کا ا دراک کرنا چاہئے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ کشمیر پر بھارتی اقدام کی چین کے سوا کسی بھی غیر مسلم ملک نے مذمت نہیں کی۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی و کاروباری روابط کے باعث مسلم ممالک کا ردعمل بھی کمزور ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی درست کہتے ہیں کہ امہ کے کاروباری مفادات بھارت کے ساتھ ہیں اس لئے اس کا ردعمل ویسا نہیں جیسا ہونا چاہئے تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی پوری وادی کو جیل بنائے ہوئے ہیں، لگ بھگ دو ہفتوں سے نافذ کرفیو کے باعث کشمیریوں کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ادویات۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ کیا دنیا بوسنیا اور گجرات جیسی مسلم کشی کا انتظار کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر دیئے گئے بیان میں انہوں نے متنبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کی اجازت دی گئی تو پھر مسلم دنیا کی طرف سے شدید ردعمل آئے گا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں جاری لاک ڈائون ختم کیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے سربراہ اکار پٹیل نے بھی مودی سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور کشمیری قیادت کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کے باعث پاکستان، آزاد کشمیر اور بیرونی ممالک میں بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ پاکستان میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے، سکھ اور عیسائی برادری نے بھی ریلیوں میں شرکت کی، اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر ہزاروں افراد نے تاریخی ریلی نکالی، برسلز، جنیوا، بارسلونا، میلان، ایتھنز، کوپن ہیگن، ویلنگٹن، برلن، پیرس، ٹوکیو، انقرہ اور تہران میں احتجاجی مظاہروں سے دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی گئی۔ مثبت پیشرفت یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس شروع ہو گیا ہے جس میں پہلے حالات کی نزاکت پر مشاورت ہوگی اور اس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ بحث کا دائرہ کیا ہو۔ امید ہے کہ پاکستان مکمل تیاری کے ساتھ اپنا موقف پیش کرے گا۔ پوری دنیا یہ جانتی ہے کہ کشمیر کے معاملے میں فریقین ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور خدانخواستہ بات مسلح تصادم تک پہنچی تو نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس نشستند و گفتند و برخاستند تک محدود نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ کونسل کے رکن ممالک کا فرض ہے کہ وہ اسے نتیجہ خیز بنائیں اور تنازع کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کے مطابق حل کریں۔ حکومت پاکستان کو موثر سفارت کاری کے ذریعے رکن ممالک سےاپنا موقف تسلیم کرانا چاہئے۔

تازہ ترین