• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت مولانا قہر لدھیانوی گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے علمبردار تھے اور ان کی ساری عمر مسلمانوں کے تمام فرقوں میں رواداری اوراختلاف ِ رائے کو برداشت کرنے کی تبلیغ میں بسر ہوئی۔ مولانا فروعی مسائل پربحث مباحثے اور مناظرے کو اسلام اور مسلمانوں کیلئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ نئی نسل کو اگر مذہب سے برگشتہ ہونے سے بچانا ہے تو پھر علما کودین کی بنیادی چیزوں کو باہمی اتحاد کی بنیاد بنانا ہوگا تاہم دین کے بنیادی اصولوں کے سلسلے میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے قائل نہیں تھے اور اس ضمن میں ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے چنانچہ اس عظیم مقصد کے لئے وہ کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔ جن میں سے چارمرتبہ تو انہیں دیوبندی، بریلوی تنازع میں پرجوش کردار ادا کرنے پر جیل جانا پڑا مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ مولانا مرحوم و مغفور نے اسلام کے جن بنیادی مسائل کی تبلیغ و ترویج کواپنی زندگی کا مشن بنایا ان میں مسئلہ نور وبشر، رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ کے مسائل شامل تھے۔ حضرت مولانا نے متعدد تصانیف بھی قلمبند کیں جن میں امرود درود مردود، اشکال فی بطن ابطال اور زحمت درمسئلہ تہہ بند کے علاوہ ”مسائل طہارت“ شامل ہیں۔ مولانا نے جنوبی افریقہ کے ممالک کے بھی کئی دورے کئے اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی کوئی اکادکا مسجد نظر آتی تھی حضرت مولانا کی مساعی ٴ جمیلہ سے وہاں فی کس مسلمان کے حساب سے علیحدہ علیحدہ مسجد تعمیر ہوئی۔مولانا قہر لدھیانوی کی وفات سے ایک عظیم خلا پُر ہو گیا ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
غلیل طوفانی
جناب غلیل طوفانی کی وفات سے پاکستان کے سیاسی حلقوں کو جس بے پناہ صدمے سے دوچار ہونا پڑا ہے وہ اتنا قابل فہم نہیں کیونکہ غلیل طوفانی کی ساری عمر بنیادی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد میں بسر ہوئی اور اس کے لئے انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا تاہم انہوں نے جیل کی صعوبتوں کا مردانہ وارمقابلہ کیا کیونکہ مرحوم کے لئے جیل کوئی نئی چیز نہیں۔ وہ سیاست کے خار زار میں قدم رکھنے سے پہلے اکثردیوانی اور فوجداری مقدمات میں جیل جایا کرتے تھے۔ مرحوم نے جن بنیادی حقوق کے حصول کے لئے عمر بھر جدوجہد کی ان میں ریاست کے خلاف جدوجہد کے حق کو تسلیم کرنا سرفہرست تھا چنانچہ ان کی ہرتقریرریاست اور بانی ریاست کے خلاف موادپرمبنی ہوتی تھی جو اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی تھی البتہ حساس اداروں کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو اخبارات وہ احتیاطاً حذف کردیتے۔ مرحوم قیام پاکستان سے پہلے کانگریس سے وابستہ تھے اوریوں وہ دو قومی نظریئے کے سخت خلاف تھے جبکہ پاکستان بننے کے بعد وہ علاقائیت پر یقین رکھتے تھے یا پھر بین الاقوامیت کے پرچارک تھے اور انہوں نے مرتے دم تک اپنی یہ دونوں حیثیتیں قائم رکھیں۔ جناب غلیل طوفانی کی وفات سے قومی سیاست میں جو خلا پیدا ہواہے وہ پُر ہونا مشکل ہے کیونکہ ایسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں اور نہ ہی پیدا ہونی چاہئیں!
جناب اقتدار دائمی
جناب اقتدار دائمی کی وفات سے مقتدر حلقوں میں صف ِ ماتم بچھ گئی ہے۔ مرحوم کا ایمان تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ صرف خدا کی ذات ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ اقتدار ِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ودیعت ہوا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ان تک پہنچا ہے۔ مرحوم نے اپنی مقتدرانہ زندگی کا آغاز ڈپٹی کمشنری سے کیا اور سارے علاقے میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ انہوں نے جوں جوں اقتدار کی منزلیں طے کیں وہ اس نتیجے پر پہنچتے چلے گئے کہ عوام کا قلع قمع کئے بغیر اقتدار قائم رکھنا ممکن نہیں تاہم یہ سب کچھ انہی کی فلاح و بہبود کے نام پر ہونا چاہئے۔ سو انہوں نے اپنی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان پر مسلسل حکومت کی۔ مرحوم ان صاحبانِ بست و کشاد میں سے نہ تھے جن کی آنکھیں اقتدار سے چندھیا جاتی ہیں بلکہ وہ اپنے کان، آنکھیں، دل اور دماغ ہمیشہ کھلے رکھتے تھے اوردنیا بھر کے صاحبانِ بست وکشاد کی ان غلطیوں سے سبق سیکھتے تھے جن کے نتیجے میں ان زعما کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ ان کی اس احتیاط ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے ان پیشروؤں کی غلطیوں کو نہیں دہرایا بلکہ ان کی جگہ انہوں نے نئی غلطیاں کیں اور بس یہ ذرا سی لغزش ان کے پیشروؤں کی طرح ان کے زوال کا باعث بھی بنی اور یوں اقتدار دائمی جو شخص نہیں ادارہ تھے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے!
رفتیہ وَلے نہ از دِل ما
قارون بہرام
قارون بہرام ایک بہت بڑے سرمایہ دار تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت فیاض بنایا تھا۔ وہ غربا ومساکین میں لاکھوں روپوں کے چیک تقسیم کرتے مگر کمزور حافظے کی بنیاد پر یا توان پرسائن کرنا بھول جاتے یاغلطی سے اس بینک کا چیک دے بیٹھتے جن میں ان کا اکاؤنٹ ہی نہیں ہوتا تھا۔ ان کی دریا دلی کا یہ عالم تھا کہ ان کی دولت کا سراغ لگانے کے لئے حکومتی عملے کے ارکان جب گاہے گاہے ان کے پاس آتے تو وہ ان کے سامنے نوٹوں کے ڈھیر لگا دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان حلقوں میں بہت مقبول تھا ا ور بہت عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا تاہم اپنی تمام تر مقبولیت اور معاشرے کے بہت سے حلقوں میں اپنے لئے پائی جانے والی عزت کے باوجود وہ بہت منکسر المزاج تھا۔وہ خود کو عام آدمیوں جیسا قرار دیتا تھا چنانچہ اسے بھی بھوک پیاس لگتی تھی۔ انہی غریب لوگوں کی طرح اس کے بھی دو ہاتھ تھے، دو ٹانگیں تھیں۔ ایک عام آدمی سے خود کو Identify کرنے کیلئے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی یعنی ایک روز چپ چاپ ہو گیا حالانکہ بستر علالت پر ڈاکٹروں کاپورا بورڈ اور میز پر لاکھوں روپوں کی ادویات تھیں۔ اسے دفن بھی سٹینڈرڈ سائز کی قبر میں کیا گیا۔ اللہ اللہ ایسے خدا ترس لوگ ہمارے درمیان اب کہا ں ہیں؟
عاشق باگڑ بلا
عاشق باگڑ بلا ایک بہت دردمند انسان تھا۔ اس کے سامنے دکھی انسانیت کی خدمت کاایک طریقہ یہ بھی تھا کہ سرے سے انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ بند کردیا جائے چنانچہ وہ اس مشن میں کم از کم اپنے دائرہ اثر میں ضرور کامیاب ہوا۔جہاں کہیں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اس نے وہاں شادی کرلی۔ یوں تو مختلف اوقات میں کی جانے والی شادیوں کے حوالے سے اس کی بیویوں کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پربھی نہیں گنی جاسکتی لیکن وہ مشرقی عورت کی مظلومیت پرکڑھتا بہت تھا چنانچہ جو بیوی اس سے خود طلاق مانگتی وہ اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرتا اورفوراً طلاق دے کر کسی دوسری مستحق خاتون سے شادی کرلیتا تھا۔ بیوی کے طلاق مانگنے کے مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا پھل قدرت کی طرف سے اسے یہ ملتا کہ وہ نان نفقہ کے اخراجات سے بری الذمہ ہو جاتا۔
اس کی آخری شادی آنسہ رانی دریادل سے ہوئی اور یہ دری دلی اب سمٹ کر جوئے کم آب بن گئی تھی۔ اس جوئے کم آب کے بارے میں ایک بڈھا راوی بیان کرتاہے کہ شادی کے بعد اس عفیفہ نے گھر سے نکلنا بند کردیا تھا لیکن عاشق باگڑ بلا باہر آتا جاتا تھا۔ ایک دفعہ اپنے کمزور حافظے کی وجہ سے اپنے گھرمیں داخل ہونے کی بجائے روز ِ روشن میں ایک ہمسائے کے گھرمیں داخل ہو گیا مگر پکڑاگیا اورمحلے والوں کے زدوکوب کے نتیجے میں جسم پر گہرے زخم آئے اور پھر ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پرہی فوت ہو گیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
تازہ ترین