• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
مسئلہ کشمیر نے بالکل نے نیا رخ اختیارکرلیا ہے اس ایشو کے تین فریق ہیں۔ کشمیری، پاکستان اور انڈیا لیکن خطے کے امن کا فیصلہ تو دراصل پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہی طے ہونا ہے۔ وہ آپس کے مذاکرات سے ہوگا یا کسی ثالثی سے۔ یا پھر جنگ سے یا جنگ کے بعد ثالثی سے یا پھر سفارتی کوشش ایسا رنگ دکھائے گی کہ مسئلہ کسی حل کی جانب بڑھے گا۔ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج سفارت کاری ملکوں کی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم جس مسلم امہ پرڈھارس باندھے ہوئے تھے ان کی انڈیا میں پاکستان سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری ہے اور تجارتی تعلق بہت گہرا ہے جس کا مطلب ہے کہ اقتصادی قوت کی مضبوطی، عالمی دھڑبندی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی انڈیا سے کشیدگی میں شدت آنے کی صورت میں ہم اسلامی دنیا کی وہ سپورٹ نہیں لے سکیں گے جس کاحکومت سوچ بیٹھی تھی کیونکہ پاکستان میں موجود مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مفادات بھی اسی باہر کی اسلامی دنیا سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے پاکستان میں ان کی طرف بھی اس وقت کشمیر ایشو پر خاموشی نظر آرہی ہے۔ جسے کشمیری سمجھتے ہیں کہ ان مذہبی، سیاسی جماعتوں نے ہمارے ساتھ وفا نہیں کی۔ پاکستان کے وزیر خاجہ کی بے بسی والے بیانات کہ کشمیر ایشو پر کوئی عسکری حل زیر غور نہیں ہے۔ یا پھر دنیا ہمارے لئے ہار لیکر نہیں کھڑی یا پھر عوام کو احمقوں کی جنت سے نکلنا چاہیے۔ وزیر خارجہ کے اس قسم کے بیانات نے کشمیریوں کے دلوں میں کئی سوال کھڑےکردیئے ہیں تو مجھے ماؤزتنگ کا وہ قول یاد آگیا کہ قومیں خودمختاری مانگتی ہیں۔ عوام آزادی چاہتے ہیں۔ چین میں جہاں آج 55 قومیتیں رہتی ہیں۔ تمام قومیں طویل تاریخی عمل اپنے مخصوص خدوخال اور اپنی لاشعوری سطح کی وجہ سے وجود میں آئیں جس کی وجہ سے وہ پیپلز ریپبلک بنی۔ چین میں کسی کو بھی قومیت ہونے کے حوالے سے اور تعداد کے حوالے سے تحفظات تھے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے نام رجسٹر کرائیں۔ ایسا کرنے سے یہ تعداد چار سو سے تجاوز کرگئی۔ لیکن پھر پارٹی اور حکومت نے سب کے ساتھ طویل مباحث اور مذاکرات کئے بالآخر یہ تعداد ایک دوسرے بڑی قومیت کا حصہ سمجھ کر ضم ہوتے ہوتے 55 تک آئی۔ آج کشمیری قوم کی جغرافیائی تقسیم کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش میں انڈیا نے جو ضرب کاری لگائی ہے۔ اس میں کشمیری قوم کا نقشہ ہونے جارہا ہے۔ لگتا ہے اسے جوڑنے کی بجائے توڑنے پر عمل ہورہا ہے۔ انڈیا کے ہندو انتہا پسند آرٹیکل 370 اور 35 Aکے خاتمے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھنے لگے ہیں۔ حکومت کے طریقہ کار سے واضح طور پر لگتا ہے کہ اس معاملے میں اسرائیل کی حکومت نے مودی کی رہنمائی کی ہے۔آرٹیکل ختم کرنے سے پہلے انڈین حکومت کو یہ باور کرادیا گیا کہ عالمی ادارے، تنظمیں اور ممالک اس اقدام کو منسوخ نہیں کراسکیں گے کیونکہ مسلم دنیا کے مالدار ممالک کے تجارتی مفادات انڈیا کے ساتھ ہیں۔ اس لئے پاکستان کا مسلم امہ اور مذہب کارڈ اس ایشو پر چل نہیں سکے گا۔ آج بھارت کے تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس جو آج کشمیر کے سپشل سٹیٹس پر آنسو بہا رہی ہے۔ یہ بھی گزشتہ ساٹھ برسوں میں کشمیریوں کی خودمختاری کی جدوجہد کو کمزور کرنے میں سرگرم رہی ہے۔ پاکستان کے میڈیا کے بعض لوگ بھی کشمیر کی جدوجہد کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جس سے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو شدید نقصان پہنچتاہے۔ مثلا یہ کہنا کہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد 1931میں شروع ہوگئی تھی۔ جب ڈوگرہ حکومت کی جانب سے اذان دینے پر مسلمانوں پر تشدد کیا گیا تھا اور جو موذن بھی منبر پر چڑھ کر اذان دیتا اسے قتل کردیا جاتا۔ اس طرح ایک گرتا تو دوسرا منبر پر چڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں کشمیر ہی نہیں بلکہ انڈیا کے کئی علاقوں میں ڈوگرہ راج کے ظلم کے خلاف مظاہرہ ہوئے لیکن مظاہروں کا کشمیر تنازع سے تعلق جوڑنا ایسےہے جیسے بعض جنوبی ہندوستان میں محمد بن قاسم کی آمد کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا اصل تنازع تو 1947 میں وجود میں آیا۔ کشمیریوں کی حقیقی مدد تو یہ ہے کہ انہیں ہر غیر کشمیری کے تسلط سے آزاد کرایا جائے اور انہیں اپنے فیصلے کرنے میں مکمل خود مختاری اور آزادی دلوانے کی کوشش کی جائے۔ اس تنازع کو مذہبی منافرت سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پڑوسی نہیں بدل سکتے تو اپنی سوچ کو ضرور بدلا جاسکتا ہے۔ خطے میں غربت کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ دونوں اطراف کے سیاستدان ہندو مسلم کشیدگی سے نکلیں۔ یہ ہندو مسلم کشیدگی تو 1947میں دو ملک بننے کے بعد ختم ہوجانی چاہیے تھی اور ساری توجہ غربت مٹانے اور خوشحالی لانے پر موکوز ہونی چاہیے تھی۔ جو تمام پڑوسی ممالک میں بھائی چارے کی پالیسی اپنانے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ جس کیلئے عوام کو مذہبی منافرت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ آج دنیا بھر میں مودی کے اقدام کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان تمام مظاہرین کے غصے میں سے مذہبی منافرت سے پاک اور بھائی چارے کے مستقبل کا پیغام برآمد ہونا چاہیے۔ آخر کار فتح امن میں جنگ میں نہیں۔
تازہ ترین