صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اختر ہزاروی مسلم ممالک کا جدید ترین نقشہ اپنے سامنے رکھ کر تھوڑی دیر غور و تدبر کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کا شغر تک سارے مسلمان ممالک تاریخ کے بدترین خلفشارکا شکار ہیں۔بدامنی کے ساتھ ساتھ سیاسی و معاشی بحران روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ان ممالک میں بسنے والے باشندے ان دگر گوں حالات کی وجہ سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ تیل اور قدرتی نعمتوں سے مالا مال مسلمان ممالک کیوں کبھی ترقی یافتہ بن سکے اور نہ ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو سکے۔ بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ چند سال پیشتر تک جو عرب ممالک امیر کہلاتے تھے وہاں اب غربت کا دور دورہ ہے۔ اگر ہم ماضی قریب میں جھانک کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ افغانستان کے ہاتھوںسوویت یونین کی شکست کے بعد عالمی سامراج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ’’نظریہ اسلام‘‘تھا۔ مستقبل میں غلبہ اسلام کے خوف سے ،ایک سوچے سمجھے منصو بے کے تحت ایسی مسلم ریاستوں کو عدم استحکام کا شکار کیاگیا جو کسی بھی وقت مسلم دنیا کے اہم ترین مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی تھیں یا ترقی کر کے اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سبب بن سکتی تھیں۔ مسلم ممالک کے دینی شعور سے عاری اور لبرل نظریات کے حکمرانوں کو استعمال کرکے مسلم امہ کو اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھا یا گیا جس کا وہ با آسانی شکار بھی ہوئے۔ قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا مسلمان ممالک میں ماضی کے مسلمان قائدین کی طرح آج کوئی بھی نہیں جو بیت المقدس کی آزادی کیلئے بھرپور کردار ادا کر سکے۔اب تو سب مسلم ممالک اس طرح اندرونی و بیرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے ہی لالے پڑے ہیں۔ قومیت پرستی کے عفریت نے اسلام کے تصور وحدت و اخوت کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایک طرف آپس کی لڑائیوں نے مسلمانوں کو بربادی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے تو دوسری طرف بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہر قسم کے ظلم و ستم کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند دہائیوں سے برما (میانمار) میں روہنگیا مسلمانوں پر بھی زمین تنگ کی جا رہی ہے ۔ 2012 سے برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت اور ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے برما کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دیئے۔ ترکی کے طیب اردوغان نے ہمیشہ کی طرح ایک مسلمان کا کردار ادا کرتے ہوئے برما کی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ لیکن باقی مسلمان ممالک کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کر سکے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے تاریخ کا بد ترین ظلم و ستم بپا کیا ہوا ہے۔ حقوق انسانی کی سخت خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ہماری بیٹیاں کسی محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کی طرف سے 100ارب ڈالر کی سالانہ تجارت کے معاہدے مسئلہ کشمیر پر ردِعمل دینے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اسی وجہ سے تمام عرب ممالک جن میں سعودی عرب، دوبئی، عمان، قطر،خلیجی ریاستیں اور کویت شامل ہیں نے، کشمیریوں پر بھارتی مظالم پرکوئی قابل قدر کردارادا نہیں کیاہے۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارتی فوج کی جانب سے وادی میں کرفیو اور مظالم پر عرب ممالک خاموش ہیں اور متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ جموں وکشمیرکی صورتحال پر صرف اظہارتشویش کا پیغام دیا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی صرف یہی کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو بغور دیکھ رہے ہیں۔۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب نے بھارت میں 75 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کی وجہ سے اب سعودی عرب اور بیڑیوں مین جکڑا گیا ہے۔ سعودی کمپنی آرامکو کی جانب سے بھارتی کمپنی ریلائنس کے 20 فیصد شیئرز خریدے جائیں گے، یہ بھارت کی تاریخ کی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات نے بھارتی سفارتی مشنز کے باہر کشمیریوں کے حق میں احتجاج کرنے پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بیان دیا ہے کہ خطے میں امن واستحکام کیلئے فوری مذاکرات کی ضرورت ہے، ہمیں اعتماد ہے دونوں ممالک مذاکرات سے مسئلہ حل کریں گے۔ اک طرف یہ بے حسی اور دوسری طرف باہمی دست و گریباںامت مسلمہ کی نظریں اقوام متحدہ، لندن اورواشنگٹن پر تو مرکوز ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ اپنی قوت سے آگاہ ہے اور نہ ہی اپنی منصبی زمہ داری کی طرف متوجہ۔ مسلمان بتدریج اپنی عظمت کی حقیقی منازل سے ہٹ گئے اور تنکا تنکا ہوکر طوفانِ حوادث کاشکارہوچکے ہیں۔ اگر ہم اپنی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں،شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رح کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں،اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم روز محشر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسولﷺ کے سامنے سُرخرو ہوہوں، اگر ہم چاہتے ہیں بطور مسلمان دنیا میں ہمارا سر فخر سے بلند ہو نہ کہ شرم سے جھکے تو پھراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی ہم ان گہری کھائیوں میں گرنے سے بچ سکتے ہیں۔