• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سوال تو شاید آپ کے ذہن میں یہ کلبلا رہا ہو کہ آپ آنے والے انتخابات میں کس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ پہلے ہی کسی جماعت یا رہنما سے وفاداری کا عہد کر چکے ہوں۔ یہ دوسری بات ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اب کئی اور سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاست کے میدان کارزار میں جو دھول اڑ رہی ہے اس میں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ کون سا جنگجو کس مورچے کی حفاظت کر رہا ہے۔ کئی شہسوار اپنے چہرے پر کئی چہرے سجا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہرحال یہ وہ وقت ہے جب ہماری ساری توجہ سیاست پر ہے۔ ڈر بھی لگتا ہے کہ خدا جانے کب کیا ہو جائے۔ جمہوریت ایک بے وفا محبوب کی طرح دل بھی دکھاتی ہے اور اس نے ہمیں اپنے دام میں گرفتار بھی رکھا ہوا ہے۔ ایسے عالم میں یہ بالکل جائز ہے کہ میڈیا قومی سیاست میں ہر روز رونما ہونے والے واقعات یا امکانات کا بھرپور جائزہ لے، اسی لئے تو دن بھر کی خبریں شام سے ہی ٹاک شوز میں گردش کرنا شروع کر دیتی ہیں اور میڈیائی دانشور رات گئے تک ان کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ ناظرین کی نیند یا ان کے خوابوں پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگائیں۔یہ سب مانتے ہوئے کہ ہمارے لئے اور میڈیا کیلئے ان دنوں انتخابات، جمہوریت اور حکمرانی کے مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس شور میں ایسے کئی واقعات گم ہو جاتے ہیں جن کا تعلق ہمارے معاشرے سے ہے اور جو ہماری بقاء اور ہمارے مستقبل سے وابستہ ہیں۔ مثلاً میں سمجھتا ہوں کہ اس ہفتے کا ایک انتہائی اہم واقعہ ملالہ یوسف زئی کا وہ بیان ہے جو 9/اکتوبر 2012ء کے قاتلانہ حملے کے بعد اس نے ٹیلیویژن کیمرے کے سامنے دیا ہے۔ یہ حقیقت کہ ملالہ زندہ ہے اور بتدریج صحتیاب ہو رہی ہے، ایک ایسے وقت ہمارے دلوں میں امید کا چراغ روشن کر سکتی ہے جب ہم سیاست کی دھند میں اپنی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے اس بات سے بہت دکھ ہوا ہے کہ ملالہ کا بیان کئی ٹاک شوز کا موضوع نہ بن سکا۔ میری نظر میں یہ ملک کے اہم معاملات سے ایک مجرمانہ غفلت ہے۔ ملالہ کے بیان کی ایک کڑی تو تعلیم اور خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کے مسئلے سے جا ملتی ہے، پھر اس واقعے کا گہرا تعلق اس بات سے بھی تو ہے کہ ایک نئے معاشرے کی تشکیل ہم کن بنیادوں پر کریں گے؟ ایک طرح سے یہ ایک سیاسی موضوع ہے بلکہ اس کا تعلق اس سوال سے ہے کہ آخر پاکستان کا مطلب ہے کیا؟ آپ میں سے بیشتر نے پیر کے دن ملالہ کو ٹیلیویژن پر اپنی بات کہتے ہوئے سنا ہو گا۔ پتہ نہیں آپ نے کیا محسوس کیا مگر میں اپنی بات کہتا ہوں۔ میں فرط جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ ایک ذہین، بہادر بیٹی جس کے چہرے پر تقریباً جان لیوا زخموں کا سایہ بھی تھا، کتنے اعتماد سے کہہ رہی تھی کہ ”آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں زندہ ہوں، بول سکتی ہوں“ اور پھر اس کا یہ پیغام کہ وہ اللہ کی دی ہوئی اپنی نئی زندگی میں پاکستان میں امن اور تعلیم کا مشن جاری رکھے گی، کتنا حوصلہ افزا ہے۔ ملالہ ہمارے لئے ایک ایسا سمبل ہے کہ جس کی معنویت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ جو بات ساری دنیا کو دکھائی دے رہی ہے وہ ہمارے اپنے ملک میں محض ایک سرگوشی بن کر رہ گئی ہے،کیوں؟
اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ملالہ بھی کسی حد تک ایک متنازع شخصیت بن گئی ہے۔ چند حلقے ایسے ہیں جو ملالہ کے مشن کو اور مغربی دنیا میں اس کی بے مثال پذیرائی کو کسی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان میں خواتین کی آزادی سے خائف ہیں۔ وہ ایک روشن خیال، فکری اور تہذیبی سطح پر تخلیقی قوت سے آراستہ معاشرے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ملالہ کو پاکستان کے مستقبل کا چہرہ سمجھنے والے یہ چاہیں گے کہ ان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو طالبان نے ملالہ کے ساتھ کیا یا جس طرح وہ لڑکیوں کے اسکولوں کو بم اور بارود سے تباہ کرتے رہے ہیں۔ یہ تو ایک ایسی جنگ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں لڑا جانا ہے، اسی لئے میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ کس طرف ہیں؟ کیا آپ طالبان کی سوچ کے حق میں ہیں یا ملالہ کے مشن کے ساتھ ہیں؟ یہ سوال پاکستان کے مستقبل کیلئے بہت اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں، جمہوریت قائم رہے گی یا نہیں یا یہ کہ کون سی جماعت حکومت بنائے گی؟
اپنے آپ سے مکالمہ ایک مشکل عمل ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ بازار میں بکنے والی چیزوں میں سے کسی کو چن لیں۔ کبھی آپ کو ایک رنگ اچھا لگے کبھی دوسرا۔ اپنے آپ سے مکالمے کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ آپ پہلے درست اور متعلقہ معلومات تک رسائی حاصل کریں۔ آپ میں سوچنے کی صلاحیت بھی ہو، تاریخ اور حالات حاضرہ کا کچھ شعور بھی ہو۔ آپ کہیں گے کہ یہ شرائط تو بہت کڑی ہیں، عام لوگ اتنے عالم، فاضل نہیں ہوتے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اسی لئے تو تعلیم اور عقلیت پسندی کسی بھی زندہ اور ترقی پذیر معاشرے کیلئے ضروری ہے لیکن ہمارے ماحول میں اپنے آپ سے مکالمے کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنی ذاتی زندگی کو نظر میں رکھیں۔ جن انسانی رشتوں کی ڈوریوں سے آپ بندھے ہوئے ہیں ان کا احترام کریں۔ اپنے گھر کی خواتین کی کتنی عزت کرتے ہیں یا ان سے کتنا پیار کرتے ہیں، اس کو خواتین کے بارے میں اپنی سوچ کا پیمانہ سمجھیں۔ کسی کی بات یا دلیل کو قبول کرنے سے پہلے اس کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیں۔ ایک مثال: کیا ملالہ پر طالبان کے حملے کی مذمت اسی طرح کی جانی چاہئے جس طرح ڈرون حملوں میں خواتین اور بچوں کی ہلاکت کی؟ ڈرون حملوں کے ناجائز ہونے کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن ڈرون حملے کرنے والے یہ تو نہیں کہتے کہ وہ خواتین اور بچوں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے نہ صرف ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ بھی کہتے رہے کہ وہ موت کی حقدار ہے۔
پاکستان میں جو ذہنی انتشار ہے اس کی ایک وجہ تو تعلیم کی کمی ہے، اس کے علاوہ عدم برداشت کے مرض نے نئے خیالات کو آنکھیں بند کر کے رد کر دینے کی روش کو فروغ دیا ہے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں فلسفہ اور منطق کی کوئی گنجائش سرے سے نہیں ہے۔ اس ضمن میں مجھے ایک کتاب کا خیال آ رہا ہے جو نوجوانوں کیلئے لکھی گئی اور جسے پڑھنے کی تلقین میں چند سال پہلے یونیورسٹی اور کالجوں کے طلبہ کو کیا کرتا تھا۔ یہ ہے ’سوفیز ورلڈ‘ یعنی سو فی کی دنیا۔ خوش قسمتی سے اس کا اردو ترجمہ جو شاہد حمید نے کیا ہے، موجود ہے۔ یہ دراصل ناول کی شکل میں فلسفے، مغربی فلسفے کی تاریخ ہے۔ ناروے کے مصنف جوسٹین گارڈر کو اپنی پندرہ سالہ بیٹی کیلئے فلسفے کی ایک کتاب کی تلاش تھی۔ بازار میں اسے یہ کتاب نہ ملی تو اس نے خود یہ کتاب لکھ دی جو ناروی زبان میں تھی پھر دوسری زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے اور یہ بہترین فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ پندرہ سالہ سوفی کو (یہی عمر ملالہ کی ہے) اپنے ڈاک ڈبے میں ایک لفافہ ملتا ہے جو اس کے نام ہے۔ لفافے کے اندر ایک پُراسرار خط ہے، صرف تین الفاظ کا ”تم کون ہو؟“ گویا یہ آغاز ہے سوچنے کا…آپ بھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے یہ پوچھ کر دیکھیں ”میں کون ہوں؟“ اردو ترجمے میں شاہد حمید نے پیش لفظ میں یہ لکھا ہے کہ ”حقیقت یہ ہے کہ جب تک بنیادی سوالات پوچھے نہ جائیں اور صدق دل سے ان کے جواب دینے کی کوشش نہ کی جائے، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے“۔ تو کیا ہم پاکستانی معاشرے کے بنیادی سوالات کو سوچے اور سمجھے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں؟
تازہ ترین