• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مراد سعید(وفاقی وزیر مواصلات)
اس کی آواز اونچی ہورہی تھی، اندر کے غصے سے لہجہ تلخ ہونے لگا تھا وہ بولتا رہا۔ ’’پڑے تھے فٹ پاتھ پر کسی گندے نالے کے پاس، ایسے مر بھی جاتے تو کسی کچرے کے ڈھیر سے ایک دن لاش برآمد ہوجاتی تب بھی کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا جس طرح لوگ روز گھور کر گزر جاتے ہیں ایسے ہی ہماری لاش سے بھی گزر جاتے۔‘‘
وہ بولتا رہا اور میری آنکھوں کے سامنے جامعہ پشاور اور پختونخوا کے ایک بڑے اسپتال کے بیچ سڑک کا وہ منظر تھا جس سے ہوش سنبھلنے کے بعد پہلی دفعہ سامنا ہوا تھا۔ سڑک پر بہت سارے لوگ پڑے ریاست کی بے حسی اور سنگ دلی کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے، کوئی دن بھر دیہاڑی کے بعد تھکن سے چور فٹ پاتھ پہ پڑا تھا تو کوئی مزدوری کی امید لیے صبح کا انتظار کررہا تھا۔
وہ جذباتی ہوکر بول پڑا اللہ اس کی مدینے کی ریاست کا خواب پورا کریں جو ہمیں سڑکوں سے اٹھاکر یہاں لے آیا۔ دن بھر محنت کرتے ہوئے یہاں آکر عزت سے روٹی بھی مل جاتی ہے اور سونے کے لیے بستر بھی۔ یہ راولپنڈی کے ایک رہائش گاہ کا منظر تھا اور بولنے والا ایک نوجوان جو کافی عرصہ فٹ پاتھ پہ سوتا رہا تھا۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں فلاحی ریاست کی بات کی اور پہلے مہینے ہی لاہور سے پناہ گاہ کا آغاز کیا۔ اب پناہ گاہ (رہائش گاہ) میں صرف رہائش نہیں بلکہ ناشتہ اور کھانے کےلیے بھی آس پاس کے مزدور اکٹھے ہوتے ہیں۔ پختونخوا میں اس کو مہمان خانہ کہا جاتا ہے جہاں ہر شہری ریاست کا مہمان تصور ہوتا ہے۔ یہ عمران خان کا احساس تھا نیک نیتی تھی اور پختہ ارادہ تھا کہ اب پناہ گاہوں کا یہ سلسلہ پورے ملک تک پھیل چکا ہے۔ اپنے گھر کے نرم بستر پر پڑے لوگوں کو شاید اس کا احساس نہ ہو لیکن وہ جو بے بسی میں شہر کا رخ کرچکے ان کو علم ہوگا کہ دن بھر کی مزدوری میں دو وقت کی روٹی مشکل ہوتی رہائش تو ناممکن اور جن کی مزدوری نہ لگے اس کیفیت سے تو اللہ بچائے۔ اسی طرح فٹ پاتھ پہ پڑے لوگ آپ نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں دیکھے ہوںگے اور شاید دیکھ کر بغیر رکے گزریں بھی ہونگے۔ لاالہ الا اللہ کی اساس پہ بنے اس مملکت خداد میں کس طرح حکمرانوں کو نیند آتی ہوگی جب ان کے شہری فٹ پاتھ پہ سوتے رہے ہوں۔ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا جہاں رحم نہ ہو اور جن کے حاکموں میں احساس نہ ہو۔
عمران خان نے رہائش گاہوں کے بعد حکومت کا سب سے بڑا پروجیکٹ ’’احساس‘‘ شروع کیا۔ احساس ہر مزدور کا، احساس ہر بے گھر کا، احساس بیوائوں کا، احساس معذوروں کا، احساس علاج کا، احساس بچوں کا، احساس ہر شہری کا۔‘‘ احساس جو شہری کیلئے ماں کا کردار ادا کریں۔ احساس جو پاکستان کی فلاحی ریاست کی پہچان بنے۔ احساس جو کمزور کا سہارا بنے۔ احساس جو ملک کی ترقی کی بنیاد بنے۔
یہ عمران خان کا احساس ہی تھا جو پختونخوا میں 2018تک ساٹھ فیصد شہریوں کو صحت کارڈ ملا۔ اس کے تحت صوبے کے کسی بھی بڑے اسپتال حتیٰ کہ بڑے پرائیویٹ اسپتال میں مفت اور بہترین علاج کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام اب پورے پاکستان میں شروع ہوچکا اور کارڈکی تقسیم بھی جاری ہیں۔ عمران خان کے احساس نے علاج کی ذمہ داری لے لی ہے جو ہر فلاحی ریاست میں ریاست کی ہی ذمہ داری ہوتی۔ اب کسی بیماری کی حالت میں جیب کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا نہ بڑی بیماری اور حادثے کی صورت میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ نہ صرف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزرنے والے بلکہ ہر مزدور اور تنخواہ دار بیماری کی صورت میں سوچ اور پریشانی میں پڑ جاتا ہے، مریض کی تیمارداری کم اور پیسوں کے انتظام کی پریشانی زیادہ ہوتی ہے، بلکہ یہ لکھتے ہوئے مجھے اپنے علاقے کے قاری صاحب یاد آگئے جو عمران خان کو دعائیں دیتے رہے
اور کہتے رہے کہ ’’ میری بیوی بیمار ہوگئی تھی میرے پاس تو کوئی چارہ نہیں تھا علاج کا کیا کرتا کس کے آگے ہاتھ پھیلاتا اگر انصاف کارڈ نہ ہوتا۔ تب مجھے پتہ چلا یہ تو کارڈ نہیں بلکہ ڈالر ہے۔ میرا ایک روپہ نہیں لگا الٹا مجھے بتایا گیا کہ آپ کے کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے آپ کا علاج کرلیا گیا ہے اور آپ اسی کارڈ سے اپنے خاندان کے کسی فرد کا بھی علاج کراسکتے ہیں۔‘‘
’’احساس‘‘ پروگرام کے نیچے ’’کفالت‘‘ کا بھی آغاز ہوگیا ہے جس میں ’’ایک عورت ایک سیونگ بینک اکائونٹ‘‘ اور 6؍ ملین اکائونٹ کھولے جائیں گے۔ نیا پاکستان ہائوسنگ کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت ’’نیوٹریشن‘‘ پروگرام بھی ہے اور پاکستان جہاں غذائی قلت نہ صرف زیادہ بلکہ اس سے بچوں کی اموات بھی ہورہی ہیں۔
عمران خان مدینے کی ریاست کا خواب لئے آگے بڑھ رہا ہے۔ مدینے کی ریاست کا خواب، نیک نیتی کا سہارہ۔ ادارے کی پختگی اور دل میں درد انشاء اللہ کامیابی مقدر۔ نیتوں کا علم اللہ کو لیکن جو شخص ہر کابینہ کے اجلاس کاآغاز اور اختتام اس بات سے کریں کہ کمزور طبقے کے اٹھانے کیلئے اپنی اپنی وزارت میں کچھ کرو اور کوئی رکاوٹ ہو تو مجھے بتائو۔ جو ہر میٹنگ میں کہے کہ انصاف، احساس اور رحم کے بغیر آپ کے فیصلوں میں برکت نہیں آسکتی جو شخص ہر تقریر کا آغاز مدینے کی ریاست سے کریں یہی ’’احساس‘‘ ہے جس نے کبھی اس قوم کو مایوس نہیں کیا جو کبھی ہار نہیں مانا۔ انشاء اللہ ایک شخص کا یہی ’’احساس‘‘ پورے ملک کے کمزور طبقے کو اٹھا دے گا۔
تازہ ترین