• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سرفرازتبسُّم ۔۔۔برطانیہ
میرے نزدیک ذی شعور انسان ہونا آہم ہے بجائے ہم جینوین رائٹرہونے کا غوغاکریں جیسی حرکات آجکل کے شاعرو ادیب کررہے ہیں اس سے رائٹر ہونا تو ایک طرف انسان ہونے پر شبہ سا ہونے لگتا ہے، ایسے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم اہلِ قلم اگر ایسے ہیں تو عام انسان کی بات کیا کریں۔
لہذاآج میں ایک ادنیٰ سا لکھاری مگر ادب کا سنجیدہ قاری ہوتے ہوئے کچھ عرض کرنا چاہتاہوں۔
میں دراصل ایک ناخواندہ اورگائوں کاایک سدھارن خاندان کا باسی ہوں میری پیدائش جہلم میں ہوئی اسی لئے میری ابتدائی تعلیم جہلم کے مسیحی سکول کانوینٹ سے ہوئی جو اس دور کا نمبر ون سکول تھا، مجھے یاد پڑتاہے جب میں نے ہوش سنبھالا تو ہمارے گھر میں ایک خط لکھنے کی غرض سے کاغذ قلم نہیں ہوا کرتا تھا، خیر مزید اپنی داستانِ حیات پھر کبھی سنائوں گا تاہم آج میرا مکالمہ ملکِ پاکستان میں بسنے والے مسیحی قلمکاروں سے ہے جو اکثریتی ومقامی سطح پر اپنی شناخت بنانے اور اپنا بنیادی حق تلاشنے میں لگے ہوئے ہیں تاہم نہ تو ان کے لئے حکومتی سطح پر کوئی باقاعدہ مراعات ہیں اور نہ ہی کوئی فنڈز وغیرہ، اگرانہیں سالانہ تقریب منعقد کرنا مقصود ہو تو مسیحی ادبا وشعرا کو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ایسی تقاریب کرنا پڑتی ہیں یہ تو ایک طرف، آج تک کسی ادیب شاعر کی کوئی کتاب نہ تو اکادمی ادبیات نے شائع کی اور نہ ہی
نیشنل بک فائوندیشن نے، سچ تو یہ ہے کہ اکادمی ادبیات اسلام آبادکی گزشتہ آل پاکستان ادبی کانفرنس میں بھی کسی مسیحی رائٹر کو مدعو نہیں کیاگیا دوسرے ایک دو ناموں کے سوا کسی شاعر کو قومی ٹی وی مشاعروں میں بھی نہیں بلایا جاتا، اگر میں کہیں غلط ہوں تو ضرور میری درستی فرمائیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے جب میں سپین میں تھا تو جب میرے ہسپانوی احباب کو پتہ چلا کہ میں شعر وغیرہ لکھتا ہوں اور میری کوئی کتاب بھی ہے تو انھوں نے ایک مقامی TVچینل پرایک شاعری کی محفل میں مدعو کیا اور میری دو نظموں غزلوں کا ہسپانوی ترجمہ بھی سکرین پر پیش کیا گیا جبکہ میں نے اپنا کلام اردو زبان میں پیش کیا۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ایک لکھاری یا اہلِ فکر طبقہ کادنیا کے دیگر ممالک میں کیا مقام ہے اور ایک دانشور کا کیا رتبہ ہے، پاکستان میں رہتے ہوئے ہمارے اہلِ قلم آج بھی فکر معاش میں ہی سر کھپاتے رہ جاتے ہیں اور اگر کوئی سربلند ہونے ہی لگتا ہے تو ٹانگ کھینچنے والے بہت ہوتے ہیں، میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ اپنی صلاحیت،فن اور ہنر کو مثبت اور تخلیقی کام میں صرف کریں اور ادب برائے زندگی کی مثال پیدا کریں مجھے دکھ ہے کہ آج بھی ہم ذاتی رنجشوں سے آزاد نہیں ہو پائے،قومی سطح پر ہماری کمیونٹی کا ادبی تخلیقی قد ابھی نہ ہونے کے برابر ہے، یہی وجہ ہے کہ قومی سطح پر کوئی حوالہ نہیں بن سکا اورعالمی سطح کی تو بات رہنے ہی دیں (میں اور میرے ایک دوست شہزادانجم نے جدید اردو غزل کے معروف شاعر نذیر قیصر کی منتخب غزلوں کے انگریزی اور ہسپانوی تراجم پہ کام شروع کیا ہے اس خیال کےساتھ کہ عالمی سطح پر ہمارا بھی کوئی حوالہ بن سکے) ورنہ پاکستانی قومی سطح پر پہچان اور مقام بنانے والے دانشور آج بھی ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، میری گزارش ہے اپنے آپ کو پہچانیں اپنے مقصّد کو اور اپنے ہنرکو پہچانیں، صرف باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے (ڈاکٹر طارق عزیز نے کہیں کہا تھا اگر انسان100کتابیں پڑھ لے تو بولنا سیکھ جاتا ہے اور اگر انسان1000کتاب پڑھ لے تو چپ رہنا سیکھ جاتا ہے )یعنی مثبت،تخلیقی اور تعمیری بات کرنے کے لئے ضرور بولیں ورنہ خاموشی ہی بھلی ہے۔گزشتہ دنوں ڈاکٹرعادل امین نے فیس بک پرفکر انگیزتحریر پوسٹ کرکے مسیحی قلمکاروں کو متوجہ کرتے ہوئے چربہ اور سرقہ کو بے نقاب کرنے کا بِیڑا اٹھایا دراصل انھوں نے ایک حالیہ مشاعرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ایک صاحب محسن نقوی کی غزل سناکر چلتے بنے ایک دو اور لوگوں کا نام ظاہر کئے بغیرحوالہ دیتے ہوئے کہنے لگے ایک صاحب تو میرے شعر مجھے ہی سنا کر چلے گئے اس سے بڑھ کر ہماری قوم کا اور کیا المیہ ہوگا اب میں کیا عرض کروں جب ابھی قلم اٹھاناسیکھ رہاتھاتوایڈیٹری کا شوق اُمنڈ آیا اور (سہ ماہی ادبیت)کا آغاز1996 میں کیا جس کی پیسٹنگ کے لئے اکثر ڈاکٹر کنول فیروز کے پاس جایا کرتا تھا۔اس سے پہلے ہی میں نے شعر کہنے کی مشق شروع کردی تھی اور اس سلسلے میں میَں معروف بزرگ شاعر عزیز ہمدم، جان کاشمیری،نذیرقیصراور پھر ڈاکٹر وزیر آغاسے ملنے لگا۔ اسی دوران ایک واقعہ ہواکہ’سہ ماہی ادبیّت‘کی بی ایم حسرت جیسی معروف ہستی کی ناگہانی وفات پر ایک خصوصی شمارہ (بی ایم حسرت نمبر) شائع کیا گیا جس میں میری معاونت پروفیسر یوسف نیّر، عمر حیات عمر اور اشرف گل ڈسکوی نے کی۔ اشاعت کے بعد حسبِ سابق رسالہ کی کچھ کاپیاں بھارت بھی بھیج دی گئیں جس کے بعد مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں بھارت کے معروف کلاسک شاعر اوم کرشن راحت نے ایک خط لکھ کرشکایت کی ’’کہ یہ کیسا خاص نمبر شائع ہواہے جس میں ساری کی ساری شاعری میری چھاپ دی گئی ہے، یعنی بعین ہی میری شاعری چھین لی گئی ابھی تو میں زندہ ہوں اور یہ ہو رہاہے مرنے کے بعد کیا ہوگا ‘‘حوالے کے لئے انھوں نے1978 میں وہی شائع شدہ شاعری کی کتاب بھی پبلیشر کے لیٹر کے ساتھ بھیج دی جب کہ بی ایم حسرت کی نہ تو کوئی کتاب میری نظر سے گزری تھی اور نہ ہی انکی شاعری کسی بڑے اخبار یا رسائل میں شائع ہوئی تھی۔کرشن راحت نے مجھے جعل سازی انڈین ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کانوٹس بھی بھیج دیا جب مجھے فوراً تردید کرنا پڑی اُس وقت میرے لئے نہایت پریشانی کا عالم تھا،یہاں میری پاکستان
کرسچین رائٹرز گلڈ کے مرکزی اراکین سے گزارش ہے بی ایم حسرت ایوارڈ آئندہ سال سے بند کردیا جائے میں اس امر میں تمام تر (Evidance)پیش کرسکتاہوں،اب دو دہائی گزر جانے کے بعد بھی ایسی حرکات میرے سمجھ میں نہیں آتیں دراصل بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے اندر روح سانس لیتی ہے ورنہ زیادہ تر لوگ روح کے بغیر ہی چل پھر رہے ہیں۔۔۔پروین کمار اشک نے شاید اسی لئے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اُٹھالے اپنے چلتے پھرتے پتھر
کوئی انسان دے جذبات والا
مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں آج تاک کاشمیری،کے آر ضیا،پروفیسر گلزار وفا چوہدری،محبوب صدا،اقبال غوری،عزیزہمدم،پروفیسر یوسف نیّرکی خدمات کو سراہوں جن لوگوں نے فکرمعاش کی مجبوریوں کے باوجود اپنا حصّہ بقدرِجُسّہ پیش کیا۔
تاہم پاکستان کرسچین رائٹرزگلڈگزشتہ تین چار دہائیوں سے شعروادب کی ترویج کے لئے مصروف ِعمل ہے یہ پاکستان کی واحد ادبی جماعت آج بھی پروفیسر یوسف نیر، عمر حیات عمر سے لیکر آرتھر برقی آرتھراور آسناتھ کنول کی خدمات پرکھڑی ہے اسے اور مضبوط اور
موثّربنانے کی ضرورت ہے۔ گلڈ کی قابل احترام کابینہ سے میری چند گزارشات ہیں،کہ کتاب پڑھنے اورکتاب شیئرکرنے کو رواج دیں۔ گلڈ کی سالانہ کانفرنس میں ملکی رائٹرز کے ساتھ مل کراہتمام کریں کانفرنس کی رپورتاژ، سالانہ کارکردگی کی رپورٹ، کتابی سرگرمیاں قومی اور عالمی سطح پرشائع کریں۔اور ایوارڈز کا اعلان باقاعدہ 5رکنی دانشورانہ پینل میں فہم وادراک سے کیاجائے، حکومتی مدد سے پاکستان کرسچیں رائٹرز گلڈ کا باقاعدہ آفس ہیڈ آفس بنایا جائے،تمام مسیحی رائٹرز کی ڈائریکٹری شائع ہونی چاہئے اور ہاں دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے اپنا تخلیقی قد بڑھائیں مل بیٹھ کر آپسی معاملات طے کریں اور اپنے تخلیق کار اور دانشور ہونے کا ثبوت دیں۔ڈاکٹر وزیر آغا صاحب نے ایک ملاقات میں کہا تھا دانشور وہ ہے جس کے شعور کی تیسری آنکھ بیدار ہوجائے جس سے انسان اپنے اندر اور باہر کا جائزہ سچائی کے ساتھ لیتا ہے۔خدا کرے ہمارے ہاں بھی اس شعور کی تیسری آنکھ کے بیدار ہونے کی خبر ملے۔
تازہ ترین