لاہور(صابرشاہ)اب جبکہ کچھ بھارتی بیوروکریٹس اورفوجی افسران جیسےسابق ایئروائس مارشل،کپل کاک، ریٹائرمیجرجنرل اشوک مہتا، سابق آئی اےایس آفیسرزہندل، حیدرطیب جی، امیتابھ پانڈے اور گوپال پیلانی اور وزارتِ داخلہ کےگروپ انٹرلوکیوٹرز برائے جموں وکشمیرکےسابق اراکین رادھا کماروغیرہ نے آرٹیکل370 کے خاتمے اور نیتجتاًمقبوضہ کشمیرکی تقسیم پر اپنےملک کی اعلیٰ عدالت کا رخ کیاہےتو یہ اب سرحد پارکےججزپرہےکہ وہ صورتحال پر کس طرح ردعمل دکھاتےہیں، جہاں نریندرمودی کی زیرِقیادت حکومت نےاپنےآئین کےبنیادی ڈھانچےکوتبدیل کردیاہے۔ آرٹیکل 370پرصدارتی آرڈر کوآئینی طور پر ناجائز قرار دیتےہوئےدرخواست میں کہاگیاہےکہ اس صدارتی عمل کوجموں وکشمیرکی قانون سازاسمبلی سےآرٹیکل 370(3) کےتحت منظوری کی ضرورت ہےکہ آرٹیکل 370اب ختم ہوجائےگا۔ تحقیق سے پتہ لگتاہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی تاریخ ہے کہ اس نےقانون سازوں کی جانب سے منظورکردہ کئی قوانین کوکالعدم قرار دیا ہے اور اسےدنیابھرمیں اس کی آزادی کےباعث سراہا جاتا ہے۔ رواں سال اگست میں موجودہ بھارتی صدررام ناتھ کووندنےملکی آئین کی چندشقوں کوختم کردیا، جن کےباعث جموں وکشمیرکوخصوصی سٹیس حاصل تھا۔ یہ اقدام اس وقت ہواجب بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نےاس حوالےسےایک قراردادمنظورکی۔ جب لوک سبھا(ایوانِ زیریں)نے’’جموں وکشمیر ریکوگنیشن بل2019‘‘370ووٹوں سے منظورکیا اور آرٹیکل 370کو ختم کرنےکےصدارتی آرڈر کی حمایت میں ایک قراردادمنظورکی توراجیہ سبھا(بھارتی سینٹ) نے 125ووٹوں سےاس بل کومنظورکیااور61ووٹ اس کےخلاف ڈالےگئے۔ اس ووٹنگ کےدوران ایک غیرحاضری بھی تھی۔ بھارتی حکومت کے اس عمل پرمقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ یہ کہنے پر مجبورہوئےکہ ’’اس فیصلےسےنتائج کافی دورس اور خطرناک ہوں گے۔‘‘ مقبوضہ کشمیر کی ایک اورسابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی جنھیں نظربند کیاگیاہے، انھوں نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپرخصوصی سٹیٹس کےخاتمے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم ایک منقسم اورکمزوربھارتی نیشنل کانگریس نےخطے میں توازن تباہ کرنے اور’’ریاست کوخطرےسے دوچارکرنے‘‘پرنریندرامودی کی حکومت پر تنقید کی۔ ’’مثال کےطورپر ایک نامورقانون سازغلام نبی آزادنے نئی دہلی پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی،’’آج بی جےپی نے آرٹیکل 370ختم کرکےآٗئین کےساتھ ساتھ جمہوریت کابھی قتل کردیا۔ جس آرٹیکل کے ذریعے جموں و کشمیر کوخصوصی سٹیٹس حاصل تھا اور یہ ملک سے جڑا ہوا تھا اسےبےرحمی سےختم کردیاگیا۔‘‘بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے نیشنل لیجسلیٹرز کی جانب سےمنظورکردہ قوانین کوکالعدم قراردینےکی مختصرتاریخ: حکومت اور عدلیہ میں پہلا تنازع اس وقت شروع ہواجب سپریم کورٹ نےآزادی کےبعد ’’لینڈ ریوینیوایکٹس‘‘کوغیرقانونی قراردیناشروع کیا، اس سے جواہر لال نہروکی حکومت کومایوسی ہوئی۔ بھارتی پارلیمنٹ نے اس وقت 1951میں پہلی آئینی ترمیم منظورکی، جس کےبعد 1955میں چوتھی ترمیم کی گئی تاکہ لینڈری ڈسٹریبیوشن کےلئےاپنےاختیارکومحفوظ کیاجاسکے۔ اعلیٰ عدلیہ نے1967میں اِن ترامیم کوپکڑناشروع کیا جب اس نے ’’گولکناتھ بمقابلہ ریاستِ پنجاب کیس‘‘میں رولنگ دی کہ پارلیمنٹ کو بنیادی حقوق ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ 1970میں عدالت نےبھارت کی پرانی ریاستوں کے سابق حکمرانوں کی مراعات ختم کرنے کے صدارتی آرڈر کومسترد کرنے کے علاوہ ’’بینک نیشنلائزیشن بل‘‘ کو غیرقانونی قراردیا۔ ردِعمل میں پارلیمنٹ نے 1971میں ایک ترمیم منظورکی جس سے اسےکسی بھی آئینی شق میں کوئی بھی ترمیم کا اختیار حاصل ہوا۔ اس نے 25ویں ترمیم بھی کی جس سے لینڈ کمپنسیشن کے حوالے سے عدالتی فیصلے کی نفی کی گئی اور راجوں مہاراجوں کی مراعات ختم کردی گئیں۔’’1973میں کیسونندابھارتی کیس‘‘ نے ’’ڈاکٹرائن آف بیسک سٹرکچر‘‘ قائم ہوئی۔ اس فیصلے کےمطابق بھارتی آئین میں کچھ بنیادی خصوصیات ہیں جس کی ایک اعلیٰ پوزیشن ہے اور اسے نہ پارلیمںٹ اور نہ سپریم کورٹ بدل سکتی ہے۔ فیصلے میں کہاگیاکہ اگرچہ یہ ترامیم آئینی تھیں لیکن عدالت کو تاحال اختیار حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی جانب سےکی گئی ایسی تبدیلی کو مسترد کردے جس کے ذریعے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کیاگیاہو۔ 1975کے ’’اندراگاندھی بمقابلہ راج نارائین کیس‘‘ میں سپریم کورٹ نے بنیادی ڈھانچے کے نظریےکو نافذکیا اور کہاکہ پارلیمنٹ کے ترامیم کرنےکےاختیار نے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کردیاہے۔ لیکن 1975-77کےبھارتی ایمرجنسی کےدور میں، جب اندراگاندھی نےایک سینئرجج جسٹس کھنہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک جونئیرجج کو چیف جسٹس تعینات کرکے اعلی عدلیہ کی حوصلہ شکنی کرنےکی کوشش کی تھی، تب بھی سپریم کورٹ نے عدالتی نظرثانی کے اپنے اختیار کو استعمال کرناترک نہیں کیاتھا۔ 1980کے ’’منرواملز کیس‘‘میں بھارتی سپریم کورٹ نےاس بنیادپرایک اور ترمیم کو مسترد کردیاتھاکہ اس نے آٗئین کے بنیادی ڈھانچے کوتباہ کیاہے۔ ’’منڈل کمیشن کیس‘‘ میں بھارتی سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ پارلیمنٹ نے اپنے اختیار سے زیادہ آئین میں ترمیم کی۔ یہ 2007تھا جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نےکہاتھا:’’جوڈیشل ایکٹوازم اور عدالتی دائرہ کار کے درمیان کی لائن بہت باریک ہے۔‘‘ لیکن اس وقت کے بھارتی چیف جسٹس بالاکرشنان نےقراردیاکہ عدالیہ کےدرمیان کشیدگی ایک طرف اور مقننہ اور ایگزیکٹوکےدرمیان دوسری طرف، یہ قدرتی اورمطلوب ہے۔ 2007میں ’’کوالہوبمقابلہ تامل ناڈوکیس‘‘ کےفیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نےیہ رولنگ دے کردوبارہ بنیادی ڈھانچےکی ڈاکٹرائن کی توثیق کی کہ بنیادی حقوق سے متصادم آئینی ترمیم کو اس کےاثراورنتائج کےباعث مستردکیاجاسکتاہے۔ فیصلے میں واضح طورپربنیادی حقوق سےمتعلقہ پارلیمنٹ کے اختیارپرمزیدحدودنافذکی گئیں۔ 11جولائی 2013 کو بھارتی سپریم کورٹ نے ایک اور قانون کو مسترد کردیا۔ اس میں پارلیمنٹ کے اراکین پریہ کہتے ہوئےجرائم کی چارج شیٹ جاری کی گئی کہ انھیں تین ماہ میں اپیل کا حق،جوپہلےحاصل تھا،دیئے بغیرفوری طورپر نااہل قراردیاجائے۔ بنیادی طورپر عدالت نے اپیل کاوقت دینےکےخلاف اپیل میں رولنگ دی تھی۔ تقریباًپانچ سال قبل 26ستمبر2014کو بھارتی سپریم کورٹ نےنیشنل ٹیکس ٹربیونل ایکٹ کو غیرقانونی قراردیاتھا جس کےتحت ٹیکس سےمتعلقہ معاملات میں ہائی کورٹس کے اختیارات لےکرنیشنل ٹربیونل قائم کیاجاناتھا۔ چیف جسٹس آرایم لودھا کی سربراہی میں جسٹسزجے ایس کیھار، جےچیلمسور، اے کے سکری اور روہنٹن ناریمن پر مشتمل 5رکنی بنچ نےقراردیاکہ بھارت میں یہ اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات پر قبضہ تھا۔ مارچ2015میں سپریم کورٹ نے ایک متنازع قانون کو کالعدم قراردے دیا جس کے تحت سوشل میڈیا پر کوئی ’’نفرت انگیز‘‘کمنٹ کرنا جرم ہوگا اورجیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔