• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راولپنڈی مجھے اس لئے بھی عزیز ہے کہ اسلام آباد بھی کبھی راولپنڈی ہوا کرتا تھا۔ اس شہر سے عقیدت کے ڈھیروں رشتے ہیں، کئی ایسے ان مٹ نقوش ہیں جو دھندلا کر بھی روشن ہیں، جوانی میں کہی گئی اپنی غزل کا مطلع راولپنڈی کے لئے ہی تھا کہ
جی بھر کے تری یاد میں رو آتے ہیں
ہم روز ترے شہر سے ہو آتے ہیں
راولپنڈی کا ایک نابغہ، نامور شاعر، محقق، ادیب اور نقاد، فخرِ پوٹھو ہار، ڈاکٹر رشید نثار 12 ریبع الاول کو منوں مٹی تلے چلے گئے۔ آزادی کی تحریکوں پر ان کا قلم بہت رواں تھا، درجنوں کتابوں کے مصنف، تحریک پاکستان کا نوجوان متوالا اور پیرانہ سالی میں علامہ مشرقی کا عقیدت مند، جسے کشمیریوں کی بے بسی کا بھی ملال تھا اور فلسطینیوں کے زخموں کا احساس بھی۔ وہ شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور ہر نوع کے قلم کاروں میں رابطے کا خوبصورت اور محبتوں بھرا ذریعہ اور ادب پروری کی لائق تحسین مثال تھے۔
1995ء کی بات ہے سید ضمیر جعفری صاحب سے راولپنڈی کے ادبی ماحول کے حوالے سے یادوں کا تبادلہ کر رہا تھا تو عبدالعزیز فطرت جنہیں بابائے پوٹھو ہار اور شاعر پوٹھو ہار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جن کے دو مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں جو 15/اکتوبر 1967ء کو وفات فرما گئے تھے۔ ان کے ذکر پر سید ضمیر جعفری نے کہا کہ ”یار مرزا صاحب وہ بھی کیا دور تھا جب عبدالعزیز فطرت سارے شہر کے شاعروں، ادیبوں کو گھر گھر جاکر مصرع طرح اور مشاعروں کی اطلاع کیا کرتے تھے، یار فطرت چلتا پھرتا دبستان تھا راولپنڈی کی ادبی تاریخ فطرت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ میں نے کہا لیکن آج کل عبدالعزیز فطرت کی جگہ ڈاکٹر رشید نثار نے لے لی ہے، راولپنڈی شہر، صدر اور اسلام آباد، جہاں تک سائیکل جا سکتی ہے رشید نثار وہاں وہاں کے مشاعروں سے ہو آتے ہیں اور شاعروں، ادیبوں کی خبر گیری بھی کرتے رہتے ہیں، اس پر جعفری صاحب نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ”ہاں یار مرزا صاحب راولپنڈی وہ خوش قسمت شہر ہے جسے ہر دور میں ایک ”سر پھرا“ میسر رہا جو سائیکل پر ادب کا چراغ لئے قریہ قریہ پھرتا رہا ہے، یار کوئی ان نابغوں پر لکھے فوق لدھیانوی پر بھی لکھا جانا چاہئے جو انہی گلیوں میں گنگناتا پھر رہا ہوگا کہ
پانی کبھی تلوار سے کٹتا نہیں جیسے
یوں دل سے جدا یاد تری ہم نہ کریں گے
راولپنڈی کا وہ ادبی مثلث ایک ایک کر کے ہم سے بچھڑ گیا، وہ بھی کیا دن تھے کہ جب راولپنڈی اسلام آباد کی کسی ادبی تقریب میں جانا ہوتا تو کسی بڑے سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی، نسیم حجازی، فیض احمد فیض، ممتاز مفتی، سید ضمیر جعفری اور کبھی کبھار قدرت اللہ شہاب کے نیاز حاصل ہو جاتے، کبھی جوش ملیح آبادی کی زیارت ہو جاتی اور اگر آغا شاہی کی محفل میسر آتی تو دنیا بھر کا علم لمحوں میں سمیٹ لینے کی سعادت نصیب ہو جایا کرتی تھی۔ سید ضمیر جعفری کے ساتھ گجرات، گوجرانوالہ اور اٹک کے میلہ مویشیاں میں بے تحاشہ مشاعرے پڑھے ایک دفعہ میں نے جعفری صاحب سے پوچھا بھی تھا کہ ہمیں مویشیوں کے میلے میں ہی کیوں بلایا جاتا ہے کیا ہمارا کلام انسانوں کی سمجھ سے باہر ہے آخر ہمارا ان میلوں ٹھیلوں سے کیا تعلق!! تو جعفری صاحب نے کہا تھا کہ ”اس قسم کے میلوں سے ہمارا وہی تعلق ہے جو بھینس کا بین کے ساتھ ہے“ لیکن اب خیال آتا ہے کہ وہ ہماری ثقافت کا حصہ تھا، مل بیٹھنے ، ملنے جلنے اور سیکھنے کا خوبصورت انداز تھا۔ درس گاہیں ساتھ ساتھ چلتی رہتی تھیں جن سے مقدور بھر علم کشید کر لیا کرتے تھے لیکن اب تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے، کہیں بھی نہیں ہے دھیرے دھیرے یہ علم و نور کی بیٹھکیں مقفل ہوتی جا رہی ہیں۔
حسین عارف نقوی بھی اسلام آباد کا ایک ایسا نابغہ تھا جو یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ چند ہفتے پیشتر عدم سدھار گئے، وہ گزشتہ چار عشروں سے اسلام آباد کے مختلف سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے، بہت سی تحقیقی کتابوں اور تذکروں کے مصنف تھے، ایران کے انقلابی رہنما امام خمینی بھی ان کی تحریروں کے معترف تھے، اسلام آباد میں ان کی نجی لائبریری سے شاید ہی کوئی ایسا اسکالر ہو جس نے ان کی کتب سے استفادہ نہ کیا ہو، یورپ، امریکہ، بھارت، ایران، افغانستان اور پاکستان بھر سے لوگ ان کے نیاز حاصل کرنے آتے، دنیا بھر کے مذاہب پر ان کی نظر تھی، وہ جتنا دیانتدار ایڈمنسٹریٹر تھا اس سے کئی گنا زیادہ سچا محقق تھا میری ان سے چالیس سالہ رفاقت تھی، شاکر اتنا کہ اپنی حدود سے ایک سینٹی میٹر بھی ادھر ادھر نہیں ہوا، قناعت کا یہ عالم کہ پینتالیس سال پہلے جس جناح کیپ کو سر پر رکھ کر نوکری کا آغاز کیا تھا ریٹائرمنٹ پر بھی وہی ٹوپی ان کے سر پر سجے رہنے کا اعزاز پائے ہوتے تھی، راولپنڈی اسلام آباد کی دوتین نسلیں ان کی شاگرد ہیں، میں انہیں استادوں کا استاد کہا کرتا ، ہر رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کا شخص ان سے دوستی کا دعویدار تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کا فرد تھا مگر عیسائی انہیں اپنا اور ہندو، سکھ بھی اپنا ہی سمجھتے رہے، وہ ربوہ میں بھی اتنا ہی مقبول تھا جتنا دیوبند یا بریلی کے گلی کوچوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا جب کہ فقہ جعفریہ اسے اپنا ورثہ سمجھتی رہی۔
حسین عارف نقوی کی انسان دوستی اور ہر مذہب و مسلک میں مقبولیت کے پیش نظر میں نے ایک دو بار ان سے کہا بھی تھا کہ نقوی صاحب آپ کے مرنے پر بڑا فساد ہوگا ہر کوئی اپنا سمجھ کر اپنے طریقے کے مطابق آپ کے آخری رسومات ادا کرنا چاہے گا اور لواحق اپناحق جتائیں گے جس پر ہنگامہ ہونے کا اندیشہ ہے اور آخر فیصلہ یہ ہوگا کہ اس شخص کو جلا دیا جائے اس لئے کہ یہ اس سیارے کی مخلوق ہی نہیں تھا کیونکہ یہاں تو دو اینٹ کی مسجد اور اپنا اپنا جبرائیل کا اصول کار فرما ہے، لیکن میرا وہ قیاس اس وقت دم توڑ گیا جب اسلام آباد کے قبرستان میں حسین عارف نقوی کے جنازے کی صفوں میں ہر قسم کے نظریات سے بلند ہو کر ہر کوئی اشکبار آنکھوں سے قطار در قطار کھڑا تھا، اس میں چار تکبیروں والے بھی تھے اور چھ والے بھی، غیر مسلم بھی رنج و الم میں تھے اور کئی گستاخ بھی مودب کھڑے تھے، رفع یدین والے بھی تھے اور ٹخنے ننگے رکھنے والے بھی، تاریخ نے وہ لمحات حسین عارف نقوی کی انسان دوستی کی علامت کے طور پر محفوظ کر لئے ہیں۔
تازہ ترین