• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد حنیف راجہ۔۔۔ گلاسگو
بھارت کے نریندر مودی اور اسرائیل کے نتن یاہو کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے مسلم دشمنی، دونوں رہنما نسل پرست اور فاشسٹ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور گزشتہ چند سال سے دونوں کے درمیان دوستی بھی عروج پر ہے۔ ان کے درمیان آپس میں اربوں ڈالر کے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔ نتن یاتو نے اگر غزہ کو ایک کھلی جیل بنا رکھا ہے تو مودی نے وادی کشمیر کو بھی ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے، وہاں پر سات لاکھ افواج قابو نہ پاسکی تھی۔ چانچہ مزید دستے بھجوا دیے گئے ہیں۔ اسرائیل نے جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا، بھارت بالکل اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وادی کے علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر عمل کررہا ہے۔ آرٹیکل370کے ختم کرنے میں یہاں لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم کو آباد کرنے کا منصوبہ ہے، جب یہاں غیر مسلم اکثریت حاصل کرلیں گے تو پھر یہاں پر وہ استصواب رائے پر بھی راضی ہوجائے گا۔ 70سال کے ظلم و تشدد کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہاں کے عوام کو دبانے میں مکمل طور پر ناکام رہا تھا۔ خصوصاً2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح تحریک آزادی نے زور پکڑا اس سے بھارتی حکمرانوں کو یقین ہوگیا کہ کشمیری کبھی بھی اس کے ساتھ رہنے کو رضامند نہ ہوں گے چنانچہ ہندوتوا کے تین بڑے رہنمائوں نریندر مودی، امیت شاہ اور اجیت اروال نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی بلکہ خود اپنے ہی آئین اور پاکستان کے ساتھ کشمیر پر شملہ اور لاہور معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس کا موقف تھا کہ یہ تبدیلیاں بھارت کا اندرونی معاملہ ہے لیکن کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے اجلاس نے ثابت کردیا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام، بین الاقوامی برادری اور سیکورٹی کونسل سے بھارت کو جو پیغام ملا ہے اس نے ان کی ندیں حرام ہوگئی ہیں۔ 50سال کے بعد سیکرٹری کونسل میں کشمیر کا مسئلہ دوبارہ اٹھا ہے اور تمام مبران نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ کسی بھی فریق کو یکطرفہ طور پر اقدامات نہیں کرنے چاہئیں اور یہ کہ کشمیر میں حالات نہایت سنگین جوتے جارہے ہیں۔ امریکہ، فرانس اور روس نے پاکستان اور بھارت کو معاملات باہمی تعاون سے حل کرنے کو کہا، بھارت اب اس قدر بوکھلا چکا ہے کہ اس کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ملک کی سابقہ ایٹمی پالیسی کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرسکتے ہیں، یہ بیان راج ناتھ سنگھ کی فسطائیت کا اظہار ہے اور یہ کہ بھارت ایک انتہائی غیر ذمہ دار ملک ہے، اس بیان سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے کہ یہ مسئلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کی صورت میں کروڑوں افراد اور پورا خطے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس سفارتی محاذ پر جنگ لڑنے کا بہترین موقع ہے۔ اخلاقی طور پر اس کی پوزیشن مضبوط ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر اجاگر ہورہا ہے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ نے قراردادیں پاس کر رکھی ہیں۔ پنڈت نہرو نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم کو جو خطوط لکھے تھے، ان میں واضح طور پر اس عہد کا اعادہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق عارضی ہے اور اس بات کا حتمی فیصلہ بالآخر کشمیری عوام ہی رائے شماری کے ذریعے کریں گے کہ وہ پاکستان یا بھارت کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اس وقت آزاد کشمیر کی حکومت ہی پورے کشمیر کی نمائندہ حکومت ہے، جہاں منتخب صدر اور وزیراعظم دونوں موجود ہیں اور اس کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی صورت حال اس وقت ایک پریشر ککر کی طرح ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ کشمیری عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ ان کے ساتھ زبردست دھوکہ کیا گیا ہے، وہ افراد یا پارٹیاں جو پہلے بھارت کے ساتھ رہنے پر رضامند تھے۔ مثلاً عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، اب وہ بھی بھارت سے سخت بدظن ہوگئے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ1947ء میں ہم نے دو قومی نظریے کو رد کرکے غلطی کی تھی، جبکہ عمر عبداللہ نے آرٹیکل370کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے، اس وقت تمام کشمیری متحد ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا مرکزی کردار ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے اور اپنے ہندو توا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بعدازاں وہ دیگر اقلیتوں کی نسل کشی کرے گا۔
تازہ ترین