• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر سب سے زیادہ معقولیت کا مظاہرہ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اور خیبرپختونخوا کی حکومت نے کیا۔ میاں نوازشریف نے بھی اس بات کی پروا کئے بغیرکہ طالبان کو طاقت کے زور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواہش مند لوگ ، عمران خان کی طرح انہیں بھی ”طالبان نواز“ قرار دے سکتے ہیں نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات جلد شروع کرنے پر زور دیا مگر حکومت حسب عادت گومگو کا شکار ہے۔ امریکہ نے بھی یہ کہہ کر حیلہ جوئی اور بہانہ بازی سے روک دیا کہ ہم نے مذاکرات کی صورت میں معاشی امداد روکنے کی کوئی دھمکی نہیں دی۔
یہ بحث اب عبث ہے کہ طالبان نے پاکستانی قوم اور اس کی فوج کو کتنا نقصان پہنچایا؟ اور ان کے پیچھے کون ہے؟ طاقت کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کا قلع قمع ممکن نہیں تو پھر مذاکرات کے سوا آپشن کیا ہے؟ کیا دہشت گردی، کراچی کی بدامنی اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی منظم تحریک کی موجودگی میں ملک میں انتخابی عمل پرامن طریقے سے مکمل ہوسکتا ہے اور انتقال اقتدار کی ضمانت مل سکتی ہے؟ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو مذاکرات پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔
1971ء میں جب عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے یحییٰ خان کو کلکتہ میں موجود بنگالی قیادت سے مذاکرات کا مشورہ دیا تو طاقت کے نشے میں چور جرنیل نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور بھارتی عزائم کا درست اندازہ نہ لگاسکا۔ اب بھی یونین کونسل کی سطح کے حکمران اور سیاستدان جوڑ توڑ میں مصروف آزاد کشمیر میں بھارتی فوج اور انٹیلی جنس بیورو کے منصوبے سے بے خبر ہیں جو بنگلہ دیش آپریشن کی طرز پر ترتیب دیا گیا ہے اور جس کا انکشاف برطانوی اخبار ڈیلی میل نے کیا ہے، انہیں یہ ادراک بھی نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے کس گروپ کو بھارتی پشت پناہی حاصل ہے اور جس طرح 1970-71ء میں ”را“ کا ڈائریکٹر جنرل اوبان سنگھ اور بریگیڈئر نارائن مکتی باہنی کو تربیت اور وسائل فراہم کر رہا تھا آج بھی کہیں نہ کہیں ”را“ کا کوئی میجر جنرل اور بریگیڈئر منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
ہماری عاقبت نااندیشی، غفلت شعاری اور سہل انگاری کی انتہا تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے 1971ء میں اپنے وطن مشرقی پاکستان کے خلاف بھارتی فوج اور اس کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کی جارحیت اور سازشوں کا مقابلہ کیا، پاکستان کی شکست و ریخت میں مصروف عناصر کے عزائم سے بنگالی عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی اور غیربنگالیوں کی نسل کشی میں مصروف لسانی و نسلی گروہوں کا حتی المقدور ہاتھ روکاانہیں بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر پھانسی، عمر قید اور دیگر سخت سزائیں سنا رہی ہے جس کے خلاف بنگلہ دیش کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں مگر 1971ء میں اپنے وطن سے وفاداری کے تقاضے نبھانے والے ان سرفروشوں مولانا غلام اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالقادر، مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر لیڈروں کے علاوہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے قائدین و کارکنوں کے حق میں پاکستان کے حکمران، سیاستدان اور این جی اوز آواز بلند کرنے سے قاصر گونگے شیطان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کا نام نہاد جنگی جرائم کمیشن جن لوگوں کو سزائیں سنا رہا ہے ان میں سے کسی پر نہ تو یہ الزام ہے کہ اس کے ہاتھ سے کوئی بنگالی جاں بحق یا زخمی ہوا، کوئی نہ کسی بنگالی خاتون کی عصمت دری کا مرتکب ہوا اور نہ نام نہاد جنگ آزادی کے کارکنوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھوننے کی واردات میں ملوث ہے۔ یہ کام غیر بنگالیوں کے ساتھ موجودہ برسراقتدار عوامی لیگ سے وابستہ ان لوگوں نے کیا جو بھارت کے آلہ کار بن کر علیحدگی کی تحریک کے سرخیل تھے۔ شرمیلا بوس کی کتاب میں بہت سے حقائق بے نقاب کئے گئے اور شریف الحق والیم کی کتاب میں تفصیل سے مکتی باہنی کی تشکیل، بھارت میں تربیت، سرمائے کی فراہمی اور جنگ بندی کے موقع پر کرنل عثمانی کو پلٹن میدان سے باہر رکھ کر بھارتی جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پراصرار کی وجہ اور تفصیل بیان کی گئی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں، دفتر خارجہ اور سیاسی قوتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی نہ صرف بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کی سزا بھگتنے والے عظیم انسانوں کے ساتھ تاریخی زیادتی ہے بلکہ موجودہ پاکستان میں اپنے وطن کی آزادی،بقا، استحکام اور سلامتی کے لئے ہمہ وقت سوچنے والے وفاداری نبھانے کے عزم سے سرشار اور جان و مال کی قربانی دینے پر آمادہ و تیار شہریوں کے لئے بھی یہ منفی پیغام ہے کہ وہ پاکستان پر مرمٹنے والے بنگالیوں کے انجام سے سبق سیکھیں۔ نظریے، عقیدے اوروطن کے بجائے اپنے مفاد اور ذات کی فکر کریں، اپنے ان رہنماؤں کو رول ماڈل بنائیں جو چوبیس گھنٹے دھن دولت سمیٹتے، اقتدا ور اختیار کے لئے فکر مند رہتے اور حب الوطنی و ملک سے وفاداری کو مڈل کلاس مینٹلٹی قرار دے کر نجی محفلوں میں مذاق اڑاتے ہیں۔
ایک نیوکلیئر ریاست کے حکمرانوں، سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور عوام کو اتنا بے حس اور زیاں کار ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہی محب وطن سابق پاکستانیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر صدائے احتجاج بلندنہ کرسکیں، نہ اس قدر عاقبت نااندیش کہ تحریک طالبان پاکستان نے مذاکرات اور امن کی جو پیشکش کی ہے اسے قبول کرنے کے لئے امریکہ کی طرف سے این او سی ملنے کا انتظار کرتے رہیں اور وقت ہمیں روند کر آگے بڑھ جائے۔
1960ء کے عشرے میں ترک حکومت نے سابق وزیر اعظم عدنان میندریس کو سزائے موت سنائی تو فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھیج کر پھانسی رکوانے کی کوشش کی اب بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابقہ شہریوں کوانتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو ہماری قومی قیادت کی زبانیں گنگ ہیں کوئی اندرونی خوف ہے، ناسمجھی یا ان لوگوں سے نظریاتی اختلافات کا شاخسانہ؟ جو بھی ہے شرمناک ہے۔ شاید طالبان سے مذاکرات کی راہ میں بھی یہی سوچ رکاوٹ ہے؟
تازہ ترین