• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
قدرت کاملہ جب کسی مسئلے کا حل چاہتی ہے تو اس کے اسباب بھی مہیا کرتی ہے۔ اگر ہم تحریک آزادی کشمیر کو دیکھیں تو گزشتہ سات دھائیوں سے زائد عرصہ بیت گیا ہے۔ ہر گزرتے دن بھارتی ریاستی مظالم کی نئی داستان، شہادتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ضمیر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نریندر مودی کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی درخواست پر ردعمل سامنے آنا شروع ہوا پھر اچانک بھارتی قیادت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تھی ، بھارت نے تمام عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دونوں آرٹیکلز کا خاتمہ کردیا۔ بھارت کی لوک سبھا میں بھی اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا پھر کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر جو گزشتہ 72 سالوں سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فورم پر طویل حل طلب مسئلہ تھا جس کی فائلوں پر دھول جم گئی تھی۔ اچانک دنیا کی نظروں میں ایسا آیا کہ ہر جانب سے مسئلہ کشمیر پر ہی بحث و تکرار شروع ہوگئی۔ ادھر بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلے سے موجود مسلح افواج کے لئےمزید تازہ دم پچاس ہزار دستے روانہ کردیئے، بارڈرز پہلے سے بند ہیں۔ غیرملکی مبصرین کو رسائی ممکن نہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ کو زبردستی گھروں میں بھیج دیا گیا، ہندویاتری جو پوجا کیلئے آئے تھے جن کا دورانیہ تقریباً چالیس روز کا تھا انہیںواپس بھیج دیا گیا۔ میڈیا پر پابندیاں ، صحافیوں کا قتل عام ، بھارتی سرکار نے سوچا ہوگا کہ طاقت کے زور پر اپنے مذموم مقاصد پورے کردیئے جائیں گے لیکن یہ اس کی بھول تھی۔ پاکستان آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر سے شدید عوامی ردعمل نے پچاس برس بعد بالآخر سلامتی کونسل کو بھی مجبور کردیا کہ پہلی بار خالصتاً کشمیر ایشو پر اجلاس بلایا گیا، اگر دیکھا جائے تو برطانیہ میں عوام دیوانہ وار کشمیریوں کے حق میں اور بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں میں چلے آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر جب یوم سیاہ کی کال آئی تو عوامی رد عمل اتنا مثبت تھا کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شکیل قرار جو برطانیہ کے دورے پر ہیں، کو کہنا پڑ گیا کہ برمنگھم ویسٹ مڈلینڈ سے کوچز اور بسیں کم پڑ گئیں، احتجاجی شرکاء زیادہ تھے۔ برطانیہ میں چلنے والی کسی بھی احتجاجی تحریک میں برمنگھم ویسٹ مڈلینڈ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ پندرہ اگست کوجامع مسجد سلطان باہو، ہارونیہ مسجد، گھمکول شریف مسجد امیر ملت، سلطانیہ امینیہ ٹرسٹ سمیت تمام چھوٹی بڑی مساجد سے اپنی مدد آپ کے تحت سیکڑوں کوچز روانہ ہوئیں اور جو افراد نہ جاسکے انہوں نے کشمیر کے جھنڈے اٹھا کر برمنگھم بھارتی قونصلیٹ کا رخ کرلیا۔ یہاں پر بھی ریکارڈ احتجاج ہوا۔ عوام نے تو اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر طوفانی دورے کرکے عالمی برادری کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے بھارت پر سفارتی دبائو بڑھا کر مقبوضہ وادی میں ریفرنڈم کی راہ ہموار کرنا ہوگی تاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں، ظلم کی انتہا ہوچکی ہے۔ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ حالات و واقعات سے لگتا ہے کشمیری اپنی منزل کے قریب ہیں۔
تازہ ترین