• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مراد سعید(وفاقی وزیر مواصلات)
سعودی ولی عہد کی گفتگو ختم ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اٹھ کر سعودی ولی عہد سے درخواست کی۔ اپنے کارخانے، بیٹے کے کاروبار یا بھائی کے این آر او کے لئے نہیں، خان نے گزارش کی ’’سعودی عرب میں مقیم میرے پاکستانیوں کا بہت خیال رکھنا، وہ میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا وطن، اپنا گھر، اپنے بچے چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کو وہاں بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سارے پاکستانی جیلوں میں ہیں۔‘‘ پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ عمران خان کے دل سے یہ بات نکلی تھی اثر کیسے نہ ہوتا۔ ولی عہد نے اسی گرم جوشی سے کہا۔ ’’آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں۔‘‘
ملائشیا کی جیلوں میں بھی بہت سارے پاکستانی قید رہے۔ عمران خان کی حکومت نے ان کی رہائی اور وطن واپسی کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ پی آئی اے کا خصوصی طیارہ عمران خان کی حکومت میں بھی استعمال ہوا پر یہ نہ وزیراعظم کو بیرون ملک لے جانے کے لئے، نہ پورے کنبے کو پھرانے کے لئے، نہ نہاری پائے منصوبے کے لئے بلکہ جیل سے رہائی پانے والے پاکستانیوں کو اپنے وطن اپنے گھر لانے کے لئے۔ پورے ملک نے دیکھا کہ پاکستانیوں کو عزت اور احترام سے اپنے گھر واپس لایا گیا۔ محب وطن بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل نئے نہیں ہیں، پچھلے پانچ سالہ قومی اسمبلی کا ریکارڈ اس کی گواہی دے گا کہ کتنی دفعہ اس وقت کی حکومت کے سامنے میں نے جیلوں میں مقید پاکستانی، اقامے کی تجدید اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی طرف توجہ دلائی، ان کے لئے آواز اٹھانا حکمراں اپنی توہین سمجھتے بلکہ اسمبلی میں جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ بیرون ملک پاکستانی ہمارا وہ اثاثہ ہیں جو ہمارے لئے زرمبادلہ بھیجتے ہیں، یہ باہر دنیا میں ہمارے ترجمان ہوتے ہیں۔ حکمرانوں نے دورے تو اربوں روپے کے کئے لیکن کبھی ان کا نام ان کی مشکلات کا حل یا ان سے ملاقات مناسب نہیں سمجھا۔ غرض تھی تو ذاتی تعلقات سے، اپنے کاروبار سے اور کیسے ذکر کرتے جب آپ خود اقامے رکھ چکے ہو۔ وزیراعظم اور وزیر ہوتے ہوئے وہاں سے تنخواہ لے رہے ہوں تو آپ کا سر جھک جاتا ہے۔ آپ اپنے مفاد کی خاطر ملک و قوم کا سودا کر چکے ہوتے ہو۔ عمران خان کے دورہ امریکا کے اوپر دنیا کی نظر تھی۔ جی وہی امریکا جس کا پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں ساتھی رہا، جس جنگ میں پاکستان نے کم و بیش اسی ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنی معیشت کا نقصان کیا۔ لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوئے لیکن جب بھی ہمارے حکمراں امریکا کا دورہ کرتے تو جھکا ہوا سر، ہاتھ میں پرچی اور ماتھے پر پشیمانی سے غیرت مند قوم کا سر بھی جھکا دیتے۔ دہشت گردی کا نشانہ ہم تھے، آشیانے میں آگ بھی ہمارے لگی تھی، جوان بیٹوں کی لاش بھی ہمارے کاندھوں پر تھی لیکن اس کے باوجود بھی حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے دہشت گردی کا ذمہ دار بھی ہم ٹھہرتے تھے۔ دنیا بھی خوددار لوگوں کی قدر کرتی ہے۔ امداد مانگنے کے لئے بھی سرکاری جہاز کنبے سے بھر کر مہنگے ہوٹلوں میں قیام اور مہنگے سوٹ سلوا کر جانے سے عزت نہیں ملتی۔ اگر امریکا سے این آر او کے لئے حکمراں پائوں پڑیں، امریکا جا کر خود کو لبرل ثابت کرنے اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کریں، قوم کے سامنے گو امریکا گو اور امریکی سفیر کے پاس جا کر پائوں پڑ کر چلو امریکا چلو کے نعرے لگائیں تو پھر سر اسی طرح جھکے رہتے ہیں اور ہر بار اتنی قربانیوں اور نقصانات کے باوجود ڈانٹ کھا کر ڈومور کی فہرست لے کر حکمراں امریکا سے اسی طرح واپس آتے ہیں۔
عمران خان امریکا عام مسافروں کی طرح جہاز میں روانہ ہوا۔ پاکستانی سفارت خانے میں قیام کیا اور قومی لباس میں عزت سمجھی۔ ہزاروں پاکستانی عمران خان کا استقبال کر رہے تھے۔ پاکستانیوں میں ایک جذبہ تھا، بہت عرصے بعد انہیں لیڈر مل گیا تھا۔ حکمرانوں کی وجہ سے جھکے ہوئے سر فخر سے دنیا کو بتا رہے تھے کہ خوددار قوم کو خوددار لیڈر مل گیا ہے۔ وائٹ ہائوس پہنچا تو ٹرمپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار نہیں، دنیا میں امن کے لئے کردار کی وجہ سے جانا گیا۔ ٹرمپ نے جب ایران کے حوالے سے بات کی تو عمران خان نے امن کا پیغام دیا امریکا میں بیٹھ کر جس کو امریکا بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ یو ایس آئی پی میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے پوری دنیا کے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کیا، امن کے دین اسلام کا اصل پیغام دنیا تک پہنچایا۔ جب امداد کی بات ہوئی تو وزیراعظم عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا ہم امداد کے لئے نہیں برابری کی سطح پر تعلقات کے لئے آئے ہیں۔ ہم دوستی کریں گے لیکن برابری کی سطح پر اور یہی تو عمران خان کا ہمیشہ سے پیغام تھا کہ دوستی اور غلامی میں فرق ہوتا ہے۔ آپ ان کی غلامی کرتے ہو، دوستی نہیں، دوستی برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے، غلاموں کی طرح احکامات بجا لانے سے نہیں۔ عمران خان دنیا کے سامنے اپنی اسی بات پر قائم رہے کہ جنگوں سے نہیں، بات چیت سے مسئلے حل ہوتے ہیں آخر18سال تباہی کے بعد دنیا عمران خان کی بات پر آ گئی۔
حالیہ بھارتی جارحیت اور کشمیر کے مسئلے پر عمران خان نے جس طرح فرنٹ فٹ پر کھیل کر نہ صرف آر ایس ایس کی انتہاپسندی، ہندوتوا کا نظریہ اور نئے دور کے ہٹلر مودی کو بے نقاب کیا بلکہ اسلام کا امن کا پیغام دنیا تک پہنچایا۔ دنیا میں دہشت کی علامت اسلام نہیں بلکہ ہندوتوا کی سوچ ہے، یہ دنیا نے جانا۔ کشمیر کا سفیر بن کر54سال بعد یو این ایس سی میں کشمیر کے اوپر اجلاس ہوا، کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں دنیا نے تسلیم کیا، کشمیر میں ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لایا، یہ سب ایک شخص کی نیک نیتی اور معاملہ فہمی کے باعث ممکن ہوا۔
عمران خان نے ایک سال کے اندر جس طرح یہ پیغام دنیا تک پہنچایا کہ ہمارا دین امن کا درس دیتا ہے، انسان کی قدر کرتا ہے، پاکستان امن کا پیامبر ہے اور پاکستانی دنیا کی عظیم قوم ہیں تو سوچتا ہوں کہ اسی مقصد کے لئے تو پاکستان بنا تھا کہ دنیا کے لئے پاکستان کو مثال بننا تھا۔ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں پر چل کر ہم نے اسے صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری پاکستان بنانا تھا۔
تازہ ترین