• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کی صورتحال بھارت کا اندرونی معاملہ، اثرات سرحدوں کے باہر بھی ہیں، امریکا، پاکستان عالمی فورمز جانے کی بجائے بھارت سے براہ راست مذاکرات کرے، امریکی محکمہ خارجہ

واشنگٹن (واجد علی سید، اے ایف پی) امریکا نے کہا ہے کہ کشمیر کی صورتحال بھارت کا اندروانی معاملہ ہے ، اسکے اثرات بھارتی سرحدوں سے باہر بھی موجود ہیں، اسلام آباد اور نئی دہلی کو چاہئے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے مذاکرات شروع کریں، پاکستان عالمی فورمز پر جانے کی بجائے بھارت سے براہ راست مذاکرات کرے، امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کی حمایت بند کرنے کے حوالے سے موثر اور دیرپا اقدامات کرے، ایسے حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ پیداواری مذاکرات اور دو ملکوں کے درمیان گفت و شنید ہو سکتی ہے، صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اگر دونوں فریق چاہیں تو وہ ثالثی کیلئے تیار ہیں لیکن ان سے ثالثی کیلئے نہیں کہا گیا،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات پرمتفق ہے کہ پراکسیز کی حکمت عملی کارگرنہیں رہی ، انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں قیدیوں کو رہا کرے اور وہاں بنیادی انسانی حقوق بحال کرے، غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر عہدیدار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لوگوں کی گرفتاریوں اور خطے میں شہریوں پر مسلسل پابندیوں پر تشویش ہے۔ خطے کے دورے سے واپس آنے والے ایک امریکی عہدیدار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہم قانون کے مطابق انفرادی حقوق کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں، انہوں نے جامع مذاکرات پر زور دیا۔ خاتون عہدیدار نے کہا کہ ہم بھارتی تشویش سے بھی آگاہ ہیں تاہم ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ خطے میں فوری طور پر حالات کو معمول پر لایا جائے۔ نمائندہ جنگ کے مطابق منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اندرونی معاملہ ہے لیکن اس کے اثرات بھارتی سرحدوں کے باہر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں، ہم طویل عرصہ سے پاکستان اوربھارت پر براہِ راست مذاکرات کے دوران زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اس ایشو کی وجہ سے پیدا ہونے والی دہائیوں پرانی کشیدگی کو بات چیت کے ذریعے ختم کریں۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ امریکا دونوں ملکوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ تعمیراتی مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے طریقے تلاش کریں اور امریکی صدر کی اس معاملے میں براہِ راست مداخلت ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے، یہ مداخلت ثالثی کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایسے دوستانہ انداز سے ہے جس میں وہ خطے میں اپنے پارٹنرز کی تعمیراتی مذاکرات کیلئے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا میں استحکام لانے کیلئے حوصلہ افزائی کی بات نئی نہیں، اس انتظامیہ نے جو پہلی حکمت عملی مرتب کی تھی اس میں جنوبی ایشیا کی حکمت عملی بھی شامل تھی، اس حکمت عملی کو جنوبی ایشیائی حکمت عملی اس لئے بھی کہا گیا کہ اس میں اسٹریٹجک مفادات اور خطے میں بھارت کا کردار بھی تھا اور ساتھ ہی خطے میں استحکام، رابطہ اور امن بھی لانا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے اپروچ پر سینئر عہدیدار نے کہا کہ امریکی حکومت کی توجہ انسانی حقوق کی صورتحال پر ہے اور ہم بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ جلد زیر حراست افراد کو رہا کرے، بنیادی آزادی اور حقوق بحال کرے اور جو کچھ بھارتی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا وہی پر امن صورتحال جموں و کشمیر میں لائی جائے، چاہے یہ کام یونین ٹیریٹری کے طور پر کیا جائے لیکن بعد میں ریاست کے طور پر کیا جائے اور سیاسی ڈائیلاگ کا عمل بحال کیا جائے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت پر زور دیا کہ جموں و کشمیرمیں حالات معمول پر لائے جائیں، گرفتاریوں، مواصلات، انٹرنیٹ کی بندش کے معاملات حل کیے جائیں، کشمیریوں کو احساس ہونا چاہئے کہ حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں جانب سے شعلہ بیانی تعمیری مذاکرات کیلئے مناسب نہیں، یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ طویل عرصہ سے پاکستان اور بھارت پر براہِ راست مذاکرات کیلئے زور دیتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا بھارت کے سرحد پر در اندازی کے تحفظات سے آگاہ ہے لیکن اس کے باوجود بھارت پر زور دیتے ہیں کہ وہ جلد از جلد حالات کو معمول پر لائے۔ کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر امریکی عہدیدار نے کہا کہ کشیدگی کے ماحول میں امریکا نے کبھی بھی دو جوہری پڑوسیوں کے درمیان سیکورٹی کے حالات کو نظر انداز نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہم براہِ راست رابطوں اور ڈی جی ایم او کی سطح پر ہاٹ لائن کی موجودگی کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ دونوں فریقین کی جانب سے شفافیت اور ہم آہنگی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں پیش آنے والے واقعے نے دنیا کو بتایا کہ دہشت گردی کا واقعہ کتنی جلدی حالات خراب کر دیتا ہے کہ جس کے نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بھارت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آزاد کشمیر پر مذاکرات ہوں گے، امریکی عہدیدار نے اسے بھارتی حکام کی ’’اسٹینڈرڈ ٹاکنگ پوائنٹس‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کشمیر ایشو دنیا بھر میں تمام پلیٹ فارمز پر لیجائے لیکن امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کثیر الفریقی بنا کر نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کنٹرول لائن کی حیثیت کو عالمی سرحد میں تبدیل کرنے کا مشورہ نہیں دے گا۔ ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملک مسئلے کے حل کی جانب مذاکرات کا راستہ تلاش کر لیں گے، یہ کام باہر سے آ کر کوئی نہیں کر سکتا۔

تازہ ترین