• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”اتحاد، ایمان، تنظیم“… فی الحال پہلے دو کا ذکر رہنے دیں، لیکن کیا اس قوم میں ” تنظیم “ نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے؟کیا ہم کوئی منظم قوم ہیں؟ دیگر باتوں کو جانے دیں، اگر آپ شادی میں کھانے کی میز پر مہمانوں کا ”پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا “ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ معاملہ لہوگرم رکھنے کے بہانے سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ معززین کی اس ہڑبونگ سے کچھ شک ہوتا ہے کہ عزیزی ڈارون کی تھیوری میں شاید تھوڑی بہت صداقت بھی ہے۔ اگر ہم ”ارتقاء“ کی ابھی اُسی منزل پر ہیں تو دیگر اہم انسانی معاملات کو درست کرنا یقینا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہماری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک، گلیوں میں بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ اور سرکاری محکموں میں ہونے والی بدعنوانی سے سب کچھ واضح ہے اور یہی حقیقت ہے لیکن غصہ تب آتا ہے جب ہر کوئی رات دن انقلابی تبدیلیوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ ہم ان معمولی مسائل کو حل کرنے کے قابل تو نہیں ہیں لیکن آفاقی معاملات کو سدھارنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
شیر شاہ سوری نے نظام میں تبدیلیاں کیں ۔ سب سے پہلے زرعی اصلاحات نافذ کیں پھر زمین سے حاصل ہونے والے محصوصلات کی مدد سے اُس نے بہتر نظام ِ حکومت کی بنیاد رکھی، فوج کو مضبوط بنایا اور شاہی دربار کے معاملات کو سدھارا۔ اب ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ پی پی پی حکومت زرعی ٹیکس نافذ کر سکتی ہے اور نہ ہی کراچی کے معاملات کو درست کرنا اس کے بس میں ہے۔ پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کسی بھی قیمت پر ہال روڈ یا لبرٹی مارکیٹ کے تاجروں پر ٹیکس لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ چاہے پٹوارخانے کا بگڑا ہوا نظام ہو، توانائی کا بحران ہو یا سڑکوں کی تعمیر کے مسائل ہوں، ہمارے اندر ان سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ اس کے باوجود ہم تبدیلی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
اب جب کہ انتخابات سر پر ہیں… اور اس میں دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں کہ انہیں وقت پر ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس کرنے کے لئے بہت سے کام باقی ہیں۔ ہمارے ہاں امن و امان کا مسلہ ہے، معیشت کی حالت ابتر ہے اور سیاسی افہام و تفہیم کی فضا بنتی نظر نہیں آتی ۔ ان سب کو سدھارنے کے لئے تنظیمی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں یہ چیز شامل ہونے سے رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے اندر خلوص کی کمی ہے، ایسا نہیں ہے لیکن خلوص اُن جگہوں پر ملتا ہے جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا اس میں کسی کو شک ہے کہ طالبان اپنے مقصد ، چاہے وہ جتنابھی قابل ِ مذمت ہو، کے ساتھ نہایت مخلص ہیں۔ فوجی تنصیبات پر نہایت بے جگری سے حملے، جن میں واپس بچ کر آنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، کرنے کے لئے اپنے مقصد سے غیر معمولی وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان میں اس مقصد کے ساتھ لگن باقی رہتی ہے یا ہمارے دفاعی ادارے ان سے نمٹنے کے لئے اس لگن کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہمیں ان کو شکست دینے کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج نے بہت قربانیاں دی ہیں اور قوم اس کے جذبے کو سراہتی ہے اور کوئی اپنے دفاعی اداروں کی لگن پر بھی شک نہیں ہے لیکن خدا کے لئے یہ تو بتائیں کہ اب جب کہ ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو اس نازک وقت میں اداروں کو کمرشل معاملات میں الجھا کر اصل سے مقصد سے توجہ ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟کیا پنجاب حکومت کی طرف سے راولپنڈی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی بل منظور کرنے اور پھر اسے وفاقی پارلیمینٹ کے پاس بھیجنے کے لئے یہ کوئی مناسب وقت تھا؟
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز کے قیام کی جو بھی خوشنما وجوہات بیان کی جائیں،ان کے ذریعے کچھ مخصوص افراد ہی جیبیں بھرتے ہیں۔ ان ”مقاصد“ سے باہر آنے کے لئے بھی پاکستان کو مخصوص قسم کی لگن کی ضرورت ہے… اس کا بھی ہمارے ہاں فقدان ہے۔ اب یہ دومعاملات ایک دوسرے سے متصادم ہیں… طالبان سے لڑنا اور پراپرٹی کے کاروبار میں الجھے رہنا، دو مختلف باتیں ہیں۔ اب طالبان سے جنگ اس نہج پر ہے کہ ہمیں مکمل ارتکاز کی ضرورت ہے لیکن ان معاملات کی وجہ سے ہماری توجہ بٹی ہوئی ہے جبکہ ہمارا دشمن اپنی کارروائیوں میں نہایت پر عزم ہے۔ طالبان کے مقابلے میں ہماری منتشر خیالی ہماری منقسم قومی نفسیات کی غمازی کرتی ہے۔
2005ء کے تباہ کن زلزے کے دوران میں مظفر آباد گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک پہاڑی ، جس کا ایک حصہ پھٹ کر دریائے نیلم میں گرگیا تھا، کے نزدیک کھڑ ا تھا جب مجھے کچھ جوانوں کی قطار نظر آئی جو بڑے منظم طریقے سے اُس خطرناک ڈھلوان پر چڑھتے، تقریباً بھاگتے ہوئے آرہے تھے۔ جب وہ نزدیک آئے تو میں دریافت کیا کہ وہ کون ہیں تو ایک نوجوان نے میری طرف سے دیکھے بغیر جواب دیا کہ اُن کا تعلق جماعت الدعوة سے ہے۔وہ اتنے چاق و چوبند تھے کہ کسی بھی ”جہاد “ میں حصہ لے سکتے تھے ۔ اس کے بعد میں نے جماعت الدعوة کی طرف سے قائم کردہ ایک عارضی اسپتال دیکھا جس میں طبی امداد کے نہایت عمدہ انتظامات موجود تھے۔ اس میں دیگر سہولتوں کے علاوہ ایک آپریشن ٹیبل اور ماہر سرجن بھی تھے… ان میں سے ایک کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ مجھے اس تنظیم سے زیادہ ہمدردی نہیں ہے کیونکہ کشمیر میں جہاد کبھی بھی پاکستان یا خود کشمیریوں کے مفاد میں نہیں تھا لیکن جب بھی میں زلزلے کے موقع پر حافظ سعید کے تربیت یافتہ جوانوں کو کام کرتے یاد کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ ہم ایک سست اور کام چور قوم ہیں لیکن مناسب تربیت اور تنظیم سازی سے ہم اپنی فعالیت تبدیل کرتے ہوئے بہت سے مسائل سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔ جماعت الدعوة اور اسی طرح دیگر انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں، اس لئے ان کا کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ناممکن نظر آتاہے۔
بہرحال ایسی ہی تنظیم سازی نے مجھے تحریک ِ منہاج القرآن کے اسلام آباد دھرنے کے دوران متاثر کیا تھا۔ اُن کے نظم و ضبط پر کوئی بھی منظم فوج رشک کر سکتی تھی۔ اس سے قطع ِ نظر کہ پروفیسر صاحب نے کیا کہا، اُن کا ایجنڈا کیا تھا یا کنٹینر کتنا گرم تھا، آدمیوں، عورتوں اور نوجوان لڑکیوں نے جس طرح تین چار دن تک باہر موسم کے شدائد برداشت کئے، وہ کبھی سوچ سے محو نہیں ہوگا۔ جب میں پی ایم اے میں تھا تو ہم نے بھی ایسی مشقیں کی تھیں اور انتخابی سیاست بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور میں اس میں کچھ مہارت حاصل کرتا جارہا ہوں لیکن جناح ایونیو میں کھلی جگہ پر شدید سردی میں رات گزارنا ” این حکایت دیگر است “اور یہ مدہم روشنیوں میں صوفے پر بیٹھ کر انقلاب کی باتیں کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ چنانچہ اگر آج کے پاکستان میں ایسے مرد اور عورتیں موجود ہیں جو دور دراز کے مقامات سے سفر کر کے اسلام آباد میں دھرنا دے سکتے ہیں تو آپ چاہے اُن کے نظریات سے اختلاف کر لیں لیکن اُن کی غیر معمولی لگن کی داد دینا پڑے گی۔
کیا ہم پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بدعنوانی اور جاری افراتفری کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ اسے چاہے بری پیشگوئی کہہ لیں، یہ کام لگن اور تنظیم سازی کے بغیر نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارے مفکرین بے عمل منصوبے بناتے ہوئے صرف بے پر کی اُڑانے کے ہی ماہر ہیں۔ ان کے لئے”گفتار کے غازی “کی اصطلاح مناسب ہے۔ اب سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور اس کے لئے جن بہت سی خوبیوں کی ضرورت ہے، اُن میں سے سب سے اہم تنظیم سازی اور نظم و ضبط ہے لیکن ہماری روایتی سیاسی جماعتوں سے ان باتوں کی توقع نہیں کی جاتی بلکہ ان کو منظم کہنا، ان پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی من پسند راہوں پر اس طرح گامزن ہیں کہ کسی فکری تبدیلی کی روادار ہی نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حامیوں کی تعداد بہت ہو لیکن ان کے اندر تنظیم نامی کوئی چیز نہیں ملے گی اور نہ ہی وہ کسی کو متاثر کر سکیں گے۔ اس”صنف“میں طالبان ہم سے بہت آگے ہیں۔
اس بات کو ایک اور پہلو سے دیکھیں : پنڈت روی شنکر(بھارت کے مشہور ستار نواز) شروع میں ایک رقاص اور اداکار تھے۔ پھر وہ فرنچ کتھولک اسکول پیرس میں داخل ہوگئے۔وہ اپنے بڑے بھائی اودے شنکر کی رقص کی ٹیم کے رکن تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑ کر مدھیہ پردیش میں استاد علاؤ الدین خان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ روی شنکر لکھتے ہیں” مجھے وہاں رہنے کے لئے ایک ایسا چھوٹا گھر ملا جس میں چوہے اور سانپ بکثرت تھے۔ رات کی تاریکی میں الّو کے بولنے کی آواز ماحول کو مزید پُراسرار بنا دیتی۔ میرا خیال ہے کہ ان نامساعد حالات میں گزارہ کرنا میری بے پناہ قوت ِ ارادی اور لگن کے کارن تھا۔ مجھے اس جگہ، جو میری پہلے والی رہائش سے بہت مختلف تھی، میں بہت مشقت کرنا پڑی۔ یہاں رہ کر میں گھنٹوں ستار نوازی کی مشق کرتا اور سربہار کے سبق دہراتا۔ میں نے یہاں سات برس تک استاد کے ساتھ ریاضت کی“۔ سات برس! ذرا تصور کریں کہ اس مشکل جگہ پر سات برس تک ریاضت نے ایک رقاص کو دنیا کا عظیم ترین ستار نواز بنا دیا۔ عظیم شاعر نرادو (Neruda) رہنما کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”وہ قوت ِ ارادی سے مالامال ہوتا ہے اور وہ ریاضت سے اپنی روح کی قوت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ تیز طوفانوں کا مقابلہ کرتے کرتے سخت جان بن جاتا ہے۔ وہ لہو کے آخری قطرے تک لڑتا ہے، تب کہیں جا کر عوام کی رہنمائی کے لائق ہوتا ہے“۔ اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ محض بیان دینے سے ہی ہم رہنما بن گئے ہیں۔
تازہ ترین