معین قریشی بریلویؔ
فضا طاہر ہے تو ذہنوں میں پھر آلودگی کیسی
ہمارے جذبہ وافکار میں فرسودگی کیسی
ادب کی سرزمیں پہ علم کی خوشبو مہکتی ہے
لب و لہجے میں پھر یہ آئے دن بیہودگی کیسی
تمرّد اور رِعونت کی ہے کیوں جذبوں میں آمیزش
رویّوں میں ہمارے بغض کی موجودگی کیسی
مسلماں ہی زمانے میں ہر اک جانب ہیں ژولیدہ
مگر اعدائے حق کو لذّتِ آسودگی کیسی
خدا جب قادرِ مطلق ہے یہ ایمان ہے تو پھر
زمیں پر آج یہ پھیلی ہوئی نمرودگی کیسی
وسیع ہیں راستے پھر کیوں قدم آگے نہیں بڑھتے
معینؔ عزم و عمل کی آج یہ محدودگی کیسی