• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیس پائپ لائن‘ایران نے ثالثی عدالت جانے سے متعلق نوٹس واپس لے لیا

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)پاک۔ایران گیس پائپ لائن‘ایران نے ثالثی عدالت جانے سے متعلق نوٹس واپس لے لیا۔ پاکستان یکم جنوری، 2015سے جرمانے کی شق کے تحت یومیہ 10لاکھ ڈالرز ایران کو ادا کرنے کاپابند ہےاور اگر ایران ثالثی عدالت سے رجوع کرتا ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔تفصیلات کے مطابق،ایران نے فروری ،2019میں پاکستان کو بھیجا گیا نوٹس واپس لے لیا ہے ۔نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان نےپاک۔ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت مقررہ وقت میں اپنی حدود میں گیس پائپ لائن نہیں بچھائی تو ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرے گا اور گیس خرید و فروخت معاہدے (جی ایس پی اے)کی شق کے تحت پاکستان پر جرمانہ بھی عائد کرے گا۔تاہم ، موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان نے ایران کو بتایا تھا کہ اسلام آباد ، جی ایس پی اے کے تحت ایران کے حقوق کا احترا م کرتا ہے لیکن فی الحال امریکی پابندیوں کے دوبارہ اطلاق کے بعد پاکستان کو گیس پائپ لائن بچھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔پٹرولیم ڈویژن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ گزشتہ منگل کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان ۔ایران گیس پائپ لائن معاہدے میں ترمیم نہیں کی گئی بلکہ متعلقہ حکام کو اجازت دی کہ وہ دستاویزات پر دستخط کرکے ایران کو یقین دہانی کرائیں کہ پاکستان اب بھی گیس پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے اور جی ایس پی اے کے تحت ایران کے حقوق تسلیم کرتا ہے۔اس دستخط شدہ دستاویز میں ایران نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ فروری 2019میں پاکستان کو بھیجے گئے نوٹس کو واپس لے گا۔فی الحال دونوں ممالک کی قانونی ٹیم امریکی پابندیوں کے تناظر میںگیس منصوبے کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے رہی ہیں ۔ایرانی ٹیم کا موقف ہے کہ امریکی پابندیوں کا اطلاق گیس فراہمی پر نہیں ہوتا، تاہم پاکستانی ٹیم کا موقف اس کے برعکس ہے۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے موقع پر ایران کے اعلیٰ حکام نے گیس پائپ لائن کا مسئلہ اٹھایا تھا اور پاکستانی قیادت کو بتایا تھا کہ وہ صرف اسی صورت میں نوٹس واپس لیں گے جب حکومت پاکستان جی ایس پی اے کے تحت781کلومیٹر کی گیس پائپ لائن ایرانی سرحد سے نواب شاہ تک کی تعمیر کی مدت میں توسیع کرے گی۔دورہ ایران سے واپس آکر وزیر اعظم نے پٹرولیم ڈویژن سے کہا تھا کہ وہ ایرانی حکام سے رابطے میں رہیں اور مسئلے کو حل کریں۔پاک۔ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر 2009میں 25سال کے لیے معاہدہ کیا گیا تھا ۔تاہم ، یہ منصوبہ اب تک منطقی انجام کو نہیں پہنچا ہے۔ایرانی حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان باہمی اتفاق رائے سے جی ایس پی اے کے تحت منصوبے کی مدت میں اضافہ کرے۔ایران نے پاکستان سے گیس قیمتوں پر نظر ثانی کی پہلے ہی درخواست کررکھی ہے۔تاہم اس مسئلے پر اب تک کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔فروری،2019 میں ایران کی جانب سے نوٹس موصول ہونے سے قبل پاکستان کی قانونی فرم نےایران کی قانونی ٹیم کو تقریباً15قانونی سوالات بھجوائے تھےاور پوچھا تھا کہ نئی امریکی پابندیوں کے ہوتے ہوئے گیس منصوبے کو کس طرح حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔ایران کا موقف یہ تھا کہ گیس فراہمی پر کوئی پابندی نہیں ہے کیوں کہ ایران کچھ یورپی ممالک کو گیس برآمد کررہا ہے اور ترکمانستان سے گیس درآمد کررہا ہے۔جس پر پاکستان کی قانونی فرم نے پوچھا تھا کہ یورپ اور ترکمانستان سے کس طریقے کار کے تحت گیس بھیجی اور حاصل کی جارہی ہے۔موجودہ جی ایس پی اے کے تحت پاکستان یکم جنوری، 2015سے جرمانے کی شق کے تحت یومیہ 10لاکھ ڈالرز ایران کو ادا کرنے کا پابند ہے اور اگر ایران ثالثی عدالت سے رجوع کرتا ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ ایران اپنا نوٹس واپس لے۔ایران سے کیے گئے معاہدے کے تحت ایران کو اپنےملک میں اور پاکستان کو اپنی حدود میں پائپ لائن بچھانی تھی ۔اس منصوبے کو دسمبر 2014تک مکمل ہوجانا تھا ، جب کہ یکم جنوری ، 2015سے اسے فعال ہونا تھا۔جرمانے کی شق کے تحت دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اگر پاکستان یکم جنوری، 2015سے ایران کی گیس لینے میں ناکام ہوا تو اسے 10لاکھ ڈالرز یومیہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین