• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع پر غور کیلئے کمیٹی قائم

اسلام آباد (طارق بٹ) وزیراعظم عمران خان نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع کے معاملے پر غور کے لئے 7 رکنی کمیٹی قائم کردی ، کمیٹی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں اضافہ کرنے یا نہ کرنے سے متعلق تجاویز دے گی لیکن اس کے اپنے مسائل اور نتائج ہوں گے۔ وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سفارشات دے کہ آیا تجویز قابل عمل ہے یا نہیں اور اگر قابل عمل ہے تو اس کے نفاذ کیلئے آگے کا راستہ تجویز کرے۔ کمیٹی کو 3 ہفتوں میں وزیر اعظم کے غور کیلئے سفارشات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کمیٹی کے قیام سے متعلق ٹی اوآرز واضح کردیئے گئے ہیں، کمیٹی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں اضافہ کرنے یانہ کرنے سے متعلق اور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر قانونی،معاشی، انتظامی، آرگنائزیشنل کارکردگی پر تجاویز دے گی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جبکہ سیکریٹری خزانہ،اسٹیبلشمنٹ، دفاع، قانون اور آڈیٹرجنرل آف پاکستان کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ کچھ عرصہ قبل ایسی ہی تجویز پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کو بھیجی گئی تھی۔ کے پی انتظامیہ نے ایک نیا قانون بنا کر اسے نافذ کردیا لیکن پنجاب حکومت نے اس پر کچھ نہیں کیا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو اس کے فوائد اور نقصانات کی وضاحت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبے عالمی بینک کی جانب سے مختلف ممالک میں بڑھتی ہوئی پینشن کی ذمہ داریوں میں کمی لانے کیلئے دئیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت تن تنہا سالانہ تقریباً 40 ارب روپے پینشنز کی مد میں ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینئر بیوروکریٹس جو کئی وجوہات کی بناء پر کارکردگی نہیں دکھا رہے وہ اس پروپوزل کو منظور کروانے میں موثر کارکردگی اور تیزی دکھائیں گے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کیلئے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی جانی چاہئے اور یہ ظاہر ہے کہ حکمران اتحاد کے پاس ایسا کرنے کیلئے سینیٹ میں اکثریت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تجویز پر عملدرآمد کیلئے حکومت کے پاس جو موقع تھا وہ اسے گزشتہ فنانس ایکٹ میں شامل کرنا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اگر وہ اس راستے کا انتخاب کرنا چاہتی ہے تو اسے فنانس ایکٹ کا انتظار کرنا ہوگا۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تجویز پر غور سے پہلے ایک عملی مطالعہ ضروری تھا جسے اس فوری معاملے میں نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مطالعے سے مستقبل کے مالی فوائد اور نقصانات کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیا اس منصوبے کا کوئی مثبت اثر بھی ہوگا کہ نہیں۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک اور پہلو یہ ہے کہ حکومت شکوہ کرتی ہے کہ بیوروکریسی کے سینئر افراد تعاون اور کام نہیں کر رہے اور اس کے اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب سرکاری نتیجہ یہ ہے تو مزید سالوں کیلئے ناکارہ افراد کو برقرار رکھنا کیسے فائدہ مند ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب نجی شعبہ نوکریاں پیدا نہیں کر رہا اور سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے نوجوانوں کے روزگار کے مواقعوں میں کٹوتی ہوگی تو حکومت 50 لاکھ نوکریاں دینے کو حقیقت میں بدلنے کے اپنے وعدوں کی تشریح کیسے کرے گی۔

تازہ ترین