• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھاگ کالم نگار کی پہچان یہ ہے کہ جب حالات ایک واضح رائے کا تقاضا کریں جس کی قیمت ادا کرنے کا خدشہ موجود ہو تو وہ ترنت جغرافیہ یا تاریخ میں پھیل کر اڑن چھو ہو جاتا ہے۔ کبھی لاطینی امریکہ اور بغداد میں دندناتا ہے، کبھی منو سمرتی اور سقراط کی خبر لاتا ہے۔ بات اکیسویں صدی اور پاکستان تک پہنچتے پہنچتے کالم کا کاغذ نبڑ جاتا ہے ۔ لکھنے والے کی جان اور پڑھنے والے کی نبضیں چھوٹ جاتی ہیں۔ دوسری طرف ایسے ہی کہنہ مشق کالم نگار کو اگر تمنا ہائے ناتمام عرض کرنی ہو تو لجا کر ایسا سمٹتا ہے کہ صاحب کی جیب کے رومال سے چپک جاتا ہے۔ اسی ایک ہاتھی دانت کے طول و عرض میں سب آرزوئیں آویزاں کر دیتا ہے۔ تملق کی روشنائی میں قلم ڈبو کر لکھتا ہے کہ گزشتہ شب صاحب نے سگریٹ سلگا کر دھواں پھیپھڑوں میں کھینچے بغیر کش لگایا تو میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ انہیں سرخرو کرے۔ ہر سانس میں اپنی پارسائی کی بلند بانگ شہادت دینے والوں سے خبردار رہنا چاہئے کہ ایسے ہی ایک بندہٴ ریا کار نے 18/اکتوبر1999ء کو”کیا اللہ اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں ہے “ کے عنوان سے ایک کالم میں آئین کے انہدام اور آمریت کے ظہور کی غیر مدلل مداحی کی تھی۔ جمہوریت کی شاخ پر پھوٹتی کونپلوں کی چٹک سے خائف گھاس کے بہت سے قطعات میں سرسراہٹ کے آثار ہیں۔ اب سے آئندہ جمہوری حکومت کے قیام تک کا عرصہ بظاہر چند مہینوں کی بات ہے مگر اس مختصر سی مدت میں جو طوفان اٹھائے جا رہے ہیں وہ ہماری تاریخ میں بہت دور تک اثرات مرتب کریں گے۔
انتخابات کا مرحلہ جیسے جیسے قریب آ رہا ہے، سیاسی آسمان کا رنگ دگرگوں ہو رہا ہے۔ ستاروں کی گردش میں تیزی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عام انتخابات کے نزدیک سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ لیتی ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو مختلف سیاسی جماعتوں کو عوام کے سامنے پیش ہو کر اپنی کارکردگی کا دفاع کرنا ہوتا ہے یا انہیں رائے دہندگان کو قائل کرنا ہوتا ہے کہ ان کا منشور عوام کے مسائل حل کرنے کی بہترضمانت دیتا ہے مگر صاحب ہمارا رنگ دنیا سے نرالا ہے، یہاں جنہیں ماضی میں عوام کی تائید ملنے کی روایت موجود ہے یا جنہیں آئندہ انتخابات میں کامیابی کی امید ہے وہ قوتیں تو شاید ابھی انتخابی معرکے کی ابتدائی تیاریوں میں ہیں لیکن کاٹھ کے پیادوں کی ایک پوری کھیپ غنیم کے کسی لشکر کی طرح فصیلِ شہر پر اتری ہے۔ سیاسی شناور کہتے ہیں کہ یہ غول بیابانی سیاسی فصل کی برداشت کے لئے نہیں بلکہ باغ اجاڑنے کی نیت سے میدان میں آیا ہے۔ اس کی ایک شہادت تو خاکسار کی مطالعہ گاہ میں آویزاں ہے۔ یہاں دسمبر 2003ء کے آخری ہفتے میں ایوان صدر کی سیڑھیوں پر لی گئی ایک تصویر لگی ہے جب سترہویں آئینی ترمیم کی مدد سے دستور کا حلیہ بگاڑا گیا تھا۔ اس کے برابر ایک تصویر8/اپریل2010ء کو قومی اسمبلی کی سیڑھیوں پر لی گئی تھی جب منتخب جمہوری قیادت نے اتفاق رائے سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستورکے جمہوری خدوخال بحال کئے تھے۔ یہ دونوں تصاویرآثار قدیمہ کا حصہ نہیں،ہماری حالیہ تاریخ کے دو اہم واقعات کی یادگار ہیں۔ دسمبر 2003ء موقع پرستی کے سیاہ اندھیرے میں گم ہو چکا اور اپریل 2010ء کی روشنی میں آج قوم پہلی مرتبہ جمہوری انتقال اقتدارکی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آج الیکشن کمیشن پر انگلیاں اٹھانے والے اور آئین کی دفعات باسٹھ تریسٹھ کی دہائی دینے والے بیشتر چہرے دسمبر2003ء والی تصویر میں پرویز مشرف کے دائیں بائیں جلوہ افروز ہیں اور اپریل2010ء والی تصویر میں غائب ہیں۔ ان کی سیاسی اصابت کا پیمانہ یہ ہے کہ آج ان میں یہ بوتا بھی نہیں کہ اپنے اس وقت کے ممدوح پرویز مشرف کے حق میں ایک کلمہ بھی کہہ سکیں۔ یہ خیرہ چشمی البتہ موجود ہے کہ جمہوری قوتوں کو ”مُک مُکا“ کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔ ”مُک مُکا“پنجابی زبان کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم ہے گٹھ جوڑ کرنا۔ صاحب، جمہوری قوتوں میں مفاہمت سیاسی تدبر کا نشان ہے۔ مُک مُکا تو آمروں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور کیمرے کی آنکھ مُک مُکا کرنے والوں کے چہرے محفوظ کر چکی۔ معمول کے حالات میں ان مٹھی بھر عناصر سے یہ خوف نہیں ہونا چاہئے کہ وہ قوم کی راہ کھوٹی کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے تاہم تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ہمارے اجتماعی لاشعور میں جمہوریت سے خوف کی روایت موجود رہی ہے اور طالع آزماؤں نے نسل در نسل اس فکری پسماندگی کی آبیاری کی ہے۔ ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ جمہوریت شہری ہونے کی بنیاد پر حکومت سازی میں شراکت کا نام نہیں بلکہ جمہوریت میں منتخب ہونے والوں کو ہماری موضوعی ترجیحات پر بھی پورا اترنا چاہئے یعنی جمہوری عمل کا نتیجہ اسی صورت میں قابل قبول ہو گا جب ہمارے پسندیدہ افراد منتخب ہوں۔ بھائی اگر معاشرے میںآ پ کے افکار ہی کو پذیرائی حاصل نہیں تو جمہوری عمل کے نتائج کو آپ کے اشارہٴ ابرو کا پابند کیسے کیا جائے۔ اس خود مرکزیت کی جڑیں برطانوی ہند کی تاریخ تک جاتی ہیں۔1892ء میں انڈین کونسلز ایکٹ کے ذریعے پہلی مرتبہ ہندوستان میں مقامی سطح پر انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ سر سید احمد خاں اپنے ایک دوست کو خط میں لکھتے ہیں ”غضب خدا کا، ہمارے شہر میں 18شریف افراد منتخب ہونا تھے، ایک بھی کامیاب نہیں ہوسکا“۔ جناب، انتخاب کے طریقہٴ کار سے گزرے بغیر یہ کیسے لازم آیا کہ آپ کے پسندیدہ شرفاء ہی کو کامیاب ہونا چاہئے۔ 1946ء میں قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے تعلیم یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے تو اسے گندے پانی کو بلونے سے تعبیرکیا گیا۔1970ء میں جمہور پاکستان نے خدائی فوجداروں کو مسترد کیا تو اس صدمے کا اظہار سلیم احمد نے اپنی نظم ”مشرق ہار گیا“کی صورت میں کیا تھا۔ سبحان اللہ! یعنی ووٹ دینے والے مزدور،کسان اور کلرک گویا مغرب سے درآمد کئے گئے تھے۔ باسٹھ تریسٹھ کی حالیہ گردان کا مدعا بھی یہی ہے کہ بھائی ووٹ ملنے کی تو ہمیں امید نہیں۔ ازراہ خدا ہمیں یہ اختیار تو دے دو کہ ہم من مانے طور پر امیدواروں کی فہرستوں پر خط تنسیخ کھینچ سکیں یعنی عوام کے حق حکمرانی کو اپنی افتاد فکر کے تابع کر سکیں۔ یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کی موجودہ صورتحال میں نیک و بدکا میزان کس مرد صالح کے سپرد کی جائے گا۔ ہمیں ایک متفقہ الیکشن کمیشن کے ارکان پر تو اطمینان نہیں اور ایک غیر جانبدار نگران وزیر اعظم کے انتخاب کے لالے پڑے ہیں۔ البتہ ہم ہزاروں پرہیزگار امیدواروں پر اتفاق کر لیں گے۔
صاحب کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نگران وزیراعظم کے لئے اب تک تین نیک ہستیوں نے ازراہ التفات اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ ایک تو شیخ الاسلام ہیں اور دوسرے محسن پاکستان ہیں۔ تیسرے ہمارے پرانے کرم فرما پرویز مشرف ہیں۔ ان تینوں صادق اور امین شخصیات نے البتہ یہ شرط عائد کی ہے کہ انہیں آئین کے مطابق تین ماہ کے لئے نہیں بلکہ کسی نامعلوم طریقہٴ کار کی مدد سے تین برس کے لئے ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ہر منتخب حکومت کے پانچ برس پورے ہونے کے بعد تین برس کے لئے نگران حکومت کا اصول اپنا لیا جائے تو جمہوریت کے تقاضے ٹھیک طرح سے نبھائے جا سکتے ہیں اور یہ تو طے ہے کہ ایسے کسی بندوبست پر ’مُک مُکا‘ کا الزام بھی نہیں دھرا جا سکے گا۔
تازہ ترین