• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: آج کل یہ دیکھنے میں آرہاہے کہ میت کے سر پر عمامہ باندھ کر دفن کیاجاتا ہے ،کیایہ درست ہے ؟(منور احمد نعیمی ،کراچی )

جواب: حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے ،تو اچھا کفن دے، (صحیح مسلم:2182)‘‘۔ علماء ومشایخ کو عمامہ کے ساتھ دفن کرنا جائز ہے اور عوام کے لیے مکروہِ تنزیہی ہے ،بہتریہ ہے کہ عامۃ الناس کو عمامہ کے ساتھ دفن نہ کریں ،لیکن اگر پہنادیاتو گنہگار نہیں ہوگا ۔تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’صحیح ترین قول کے مطابق میت کے سرپر عمامہ باندھنا مکروہ ہے ، بحوالہ : ’’مُجتبٰی‘‘ اوربعض متاخرین نے علماء ومشایخ کے لیے مستحسن قراردیاہے اور (مرد کے کفن میں) تین کپڑوں سے زیادہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور کفن اچھا بنانا چاہیے کیونکہ حدیث پاک میں ہے : مُردوں کے اچھے کفن بناؤ کیونکہ وہ باہم ملاقات کرتے ہیں اور اچھے کفن پر باہم فخر کرتے ہیں ، بحوالہ:’’ظہیریہ‘‘ ‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس سے قبل ’’المُجتبیٰ‘‘سے کراہت کو نقل کیا ہے ،لیکن ’’الحلیہ‘‘ میں ’’الذخیرہ‘‘ کے حوالے سے ہے اوراُنہوں نے ’’عِصام‘‘ کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا: پانچ تک کپڑے مکروہ نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ،پھرکہا: اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے واقد کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا ،قمیص ،عمامہ اورتین لفافے اور عمامے کو اس کی ٹھوڑی کے نیچے سے گھمایا، اسے سعید بن منصور نے روایت کیا،(حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد5،ص:226-227، دمشق )‘‘۔لیکن جہاں لوگوں کے لیے میت کو عمامہ پہنانا مانوس ہو ،تو ایسی چیزوں کو اختلاف کا سبب نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ کسی امر مستحب پر اصرار اور اس کے ترک پر ملامت اسے واجب کا درجہ دینا ہے اوریہ درست نہیں ہے اور کوئی اپنے ذوق کے مطابق کررہاہے تو دوسروں کو اس پر بلاوجہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے ،بہر حال عوام کے لیے یہ مکروہ تنزیہی ہے۔

تازہ ترین