• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پہلا موقع نہیں کہ نواز شریف نے حکومت ِ پاکستان کو طالبان کے ساتھ سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرنے کا کہا ہے۔ وہ خود امریکیوں کے سامنے بھی یہی بات کہتے رہے ہیں۔ امریکی ، جو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں لیکن پاکستانی طالبان کے متعلق ان کی پالیسی مختلف ہے ۔ وہ ان کے خلاف طاقت کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے پاکستان پر امریکی دباوٴ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ڈرون حملے وحشیانہ طاقت کے بھرپور استعمال کی اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ کینیڈا پلٹ ”شیخ الاسلام“ ان ڈرون حملوں کے جواز کے لئے طالبان کی دہشت گردی کا حوالہ دیتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے انہوں نے پاکستانیوں کو امریکیوں کے احسانات یاد دلاتے ہوئے کہا تھا ، یہ وہی امریکہ ہے جس نے پاکستان کو تربیلا اور منگلا ڈیم بنا کر دیے۔ اب اس کے ڈرون حملے دہشت گردی کا ردِ عمل ہیں۔ جارج ٹاوٴن یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر جان ریسپو زیٹو کے پیش لفظ کے ساتھ خود کش حملوں اور دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام کا 400 سے زائد صفحات پر مشتمل فتویٰ اس کے علاوہ ہے۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں جس کے لاکھوں نسخے دنیا بھر میں تقسیم ہوئے۔ اسی کے بعد وہ ”شیخ الاسلام“ بنے اور امریکہ و یورپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوگئے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کی یہی بات نواز شریف نے نیگرو پونٹے اور رچرڈ بوچر سے بھی کہی تھی جو 2008 کے الیکشن کے بعد پاکستان میں طاقت کے نئی سیاسی مراکز سے رابطے کے لئے بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچے تھے۔ جنابِ زرداری (تب صدرِ پاکستان نہیں بنے تھے) سے ان کی ملاقات امریکی سفارتخانے میں ہوئی جب کہ نواز شریف سے ملاقات کے لئے امریکیوں کو ان کی قیام گاہ (فرنٹئیر ہاوٴس ) آنا پڑا تھا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نواز شریف نے اپنے امریکی مہمانوں پر واضح کیا کہ ان کے لئے پاکستان کا قومی مفاد اولین ترجیح کا حامل ہے۔ انہوں نے امریکیوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کی کہ دہشت گردی کے خلاف طاقت کا استعمال بہت ہو چکا اب کیوں نہ مفاہمت اور مذاکرات کا نسخہ آزمایا جائے۔ ان کا کہنا تھا ہم واشنگٹن کی سیکیورٹی سے لاتعلق نہیں لیکن اس کے لئے اپنے ملک کو مقتل نہیں بنا سکتے۔ اکتوبر 2008 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار کے حوالے سے پارلیمینٹ کا بند کمرے کا اجلاس دو ہفتے جاری رہا جس میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی قیادت بھی موجود تھی۔ مسئلے کے تمام پہلووٴں پر مفصل بحث مباحثے کے بعد منظور کردہ قراداد میں دیگر نکات کے علاوہ امن کو راستہ دینے پر بھی اصرار کیا گیا۔ 2 مئی کے واقعہ ایبٹ آباد کے بعد پارلیمینٹ کے خصوصی اجلاس میں آرمی چیف اورڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں منظور کردہ قراداد میں پاکستان کی قومی خود مختاری کو پامال کرنے والے اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کے ساتھ اکتوبر 2008 کی قراداد پر عملدرامد پر بھی زور دیا گیا۔ ستمبر 2011 کے اواخر میں مائیک مولن کی دھمکیوں پر وزیرِ اعظم گیلانی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی نواز شریف نے اسی موقف کا اعادہ کیا۔ ادھر ہمارے بعض دوست جو صبح شام میاں صاحب کی خیر خواہی کا دم بھرتے رہتے ہیں ، طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے میاں صاحب کے تازہ بیان پر اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار نظر آتے ہیں۔ نمازِ جمعہ کے بعد انہوں نے ہمیں مسجد کے باہر گھیر لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ عین اس وقت جب عام انتخابات سر پر ہیں میاں صاحب کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو پاکستان کے امریکی مہربانوں کی ناراضی کا باعث بن سکتے ہیں۔ہم میاں صاحب کے وکیل ہیں نہ ترجمان لیکن اتنی سے بات ضرور جانتے ہیں کہ وہ امریکہ سمیت دنیا کے سبھی ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ وہ کسی کے ساتھ بگاڑ کے حامی نہیں لیکن پاکستان کا قومی مفاد ان کے لئے اولین اہمیت کا حامل ہے جس پر وہ کسی سودے بازی کے قائل نہیں۔ اس کے لئے ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں اور کب کب امریکیوں کے تمام تر دباوٴ کے باوجود انہیں پوری جرات کے ساتھ NO کہا۔ 2011 کے اوائل میں ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر میاں نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا موقف زیادہ دور کی بات نہیں۔ صدر اوبامہ سے لے کر ہیلری کلنٹن تک اس کی رہائی کے لئے دباوٴ ڈال رہے تھے۔ وہ اس کے لئے سفارتی استثنیٰ کی بات بھی کرتے ۔ اس کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر بے گناہوں کا خون بہنا کہاں کی سفارتکاری ہے۔ جان کیری اس کے لئے بھاگم بھاگ پاکستان آئے انہوں نے حکومت پاکستان کے علاوہ نواز شریف سے بھی رابطہ کیا۔ اس پرمیاں صاحب کا جواب تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے فیصلہ وہیں سے صادر ہو گا۔ امریکیوں کے تمام تر دباوٴ کے باوجود ریمنڈ ڈیوس ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ لاہور کی جیل میں رہا اور آخرکار عدالت میں مقتولین کے ورثا سے دیت پر معاملہ طے کر کے وہ اسے لے گئے۔
ادھر پاکستان کے سیاسی افق پر کچھ نئے مناظر ابھر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام الیکشن کمیشن کی تحلیل کی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ الیکشن کا التوا اور اڑھائی تین سال کیلئے عبوری حکومت ان کے ایجنڈے کا اصل نقطہ ہے۔ گزشتہ اگست / ستمبر میں کینیڈا سے وڈیو لنک پریس ٹاک میں انہوں نے کھل کر یہی بات کہی تھی۔ 23 دسمبر کو لاہور کے جلسے میں بھی انہوں نے اسی پر اصرار کیا ، ”الیکشن جب بھی ہوں ان کی مجوزہ انتخابی اصلاحات کے بعد ہوں۔ نیکی کا یہ کام انہوں نے نگران حکومت کے ذمے ڈال دیا تھا۔ اس کیلئے انہیں انتخابات کے التوا میں بھی کوئی عار نہیں تھی۔ اس کیلئے وہ کھینچ تان کر آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ لائے ۔ جس کے مطابق آئین میں مقررکردہ مدت کے بعد ہونے والا کام بھی آئینی جواز رکھتا ہے۔ سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور سول سوسائٹی نے الیکشن کے التوا کی سازش کی بھرپور مخالفت کی۔ سپریم کورٹ بھی آئین میں دی گئی مدت کے اندر انتخابات پر اصرار کر رہیں تھی۔ تب شیخ الاسلام نے پینترا بدلا ۔ اب ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت آئینی مدت کے اندر بھی یہ کام کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے ابتدا میں ان کا اعتراض چیف الیکشن کمیشن کی عمر پر تھا۔ وہ انہیں ”امین “تو تسلیم کرتے تھے لیکن 80 سال سے زائد عمر کے باعث ”قوی“ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اب وہ الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس کیلئے سپریم کورٹ جا پہنچے ہیں۔ جناب فخرالدین جی ابراہیم کی زیرِ قیادت اس الیکشن کمیشن کو 8 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کپتان سمیت سبھی جماعتیں اس پر اظہارِ اعتماد کر رہی تھی۔ اسکے خلاف پہلی آواز چوہدری برادران نے اٹھائی جب مسلم لیگ (ن) 4 دسمبر کو ہونیوالے ضمنی انتخابات میں پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں اور صوبائی اسمبلی کی 6 میں سے 5 نشتیں واضح اکثریت سے جیت گئی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا ہارنے والوں کی شکایات ”عمومی نوعیت“ کی ہیں۔ وہ دھاندلی کے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خدا کی شان ، ایک آمر کی سیاسی ضرورت کے تحت وجود میں آنے والی قاف لیگ جس نے 2002 کے الیکشن ایجنسیوں کی سرپرستی اور بھرپور امداد کے ساتھ لڑے ، اب الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دے رہی تھی۔ کپتان بھی چند روز پہلے تک اسی الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد کا اظہار کر رہا تھا۔ شیخ الاسلام کے لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران اس کا موقف تھا کہ وہ کسی غیر آئینی اقدام کے حق میں نہیں اور یہ کہ وہ نگران حکومت کے قیام کا انتظار کرے گا اور اگر یہ غیرجانبدار نہ ہوئی تو اس کے خلاف تاریخی مارچ کیا جائے گا۔ اب اس کی تحریک انصاف بھی الیکشن کمیشن کی تحلیل اور اس کی از سرِ نو تشکیل کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ لاہور میں ریپڈ بس سروس کے منصوبے اور طلبا میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپس کی تقسیم کو پری پول رگنگ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے اور قومی تعمیر و ترقی کے پروگرام کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہوتے ہیں جس کے لئے وہ اپنے قیام کے پہلے روز سے سرگرم ہو جاتی ہے۔اور ظاہر ہے کہ اس کا مقصد آخرت میں جنت کے حصول سے زیادہ عوام کے اعتماد اور توقعات پر پورا اترنا اور یوں اپنے ووٹ بنک کو مضبوط اور وسیع تر کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے آئینی مینڈیٹ کے آخری روز تک یہ اس کا استحقاق بھی ہوتا ہے اور فرض بھی۔حیرت ہے سرکار کی طرف سے مفت فراہم کردہ زمین پر عوام کے زکوٰة صدقات ، عطیات اور چندوں کے ساتھ قائم کئے گئے ہسپتال کو اپنی سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرنے والے ، حکومت کے عوامی فلاح کے منصوبوں کو پری پول رگنگ قرار دیتے ہیں۔
تازہ ترین