• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
مقبوضہ کشمیر سے آنے والی آخری اطلاعات کے مطابق وہاں کرفیو ابھی جاری ہے گذشتہ تین ہفتوں کے دوران وادی میں کیا کیا ہوا، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے، جن علاقوں میں کرفیو میں نرمی کی گئی ہے وہاں بھی لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلے، لوگوں نے دکانیں نہیں کھولیں، بچے سکولوں میں نہیں گئے، نجانے بھارتی درندہ صفت فوجویں نے اس کرفیو کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے؟ کتنے لوگوں کو گرفتار کیا ہے؟ کتنی خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے؟ ابھی دنیا کو کچھ معلوم نہیں ! مگر جس طرح احتجاجی قبروں اور بڑے پیمانے پر زیادتیوں کے حقائق پہلے دنیا کے سامنے آئے تھے۔ اسی طرح اس کرفیو کے بعد بھی سب حقائق ایک ایک کرکے سامنے آئیں گے ان کو آہستہ آہستہ سامنے لایا جائے گا۔ تاکہ بہت زیادہ رد عمل نہ ہوا! مگر دنیا کے کانوں پر پہلے جوں رینگی تھی نہ اب رینگے گی! جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کئے جانے کے بعد پاکستانی حکومت نے جتنی دوڑیں لگانا تھیں۔ لگائیں، سیاستدانوں نے ’’روندی یاراں نوں، لے لے ناں براوں دے‘‘ کے مصداق جتنا کیتھارسس کرنا تھا، کرلیا۔ میڈیا نے بھی تین ہفتے تک خوب شور شرابا اور آہ و بکا کی! اب ایسا لگتا ہے کہ سب تھک گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر کشمیر سے متعلق خبریں، تجزیئے اور تبصرہ ختم ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم ،وزراء اور مشیران حکومت بھی اپنے دھندوں پر واپس لگ گئے ہیں۔ اکا دکا ٹیوٹ یا بیان ضرور آجاتا ہے۔ خود کشمیریوں کو بھی چپ لگ گئی ہے، شاید وہ کرفیو زدگی سے نکلیں گے تو کچھ بولیں گے کہ ان کی یہ چپ کسی ڈر یا خوف سے نہیں بلکہ سوگ اور غصے کی وجہ سے ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھارت کے سارے مسلمانوں کو چپ لگی ہوئی ہے، وہ اب کسی بھی بات پر نہیں بولتے، بھارت کے کئی سنجیدہ لیڈر یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی یہ چپ انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہ بھی اپنے حققو کی جنگ لڑنے میں کشمیری مسلمانوں کی طرح انتھک ہیں۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال خصوصاً اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اعلا ن کیا ہے جس سے بظاہر اس مسئلے پر حکومت پاکستان کی سنجیدگی کا اظہار تو ہوتا ہے مگر اس معاملے کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا معاملہ کھوکھاتے میں چلا جائے گا۔ جب تک عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت شروع ہوگی وکلا دلائل دیں گے۔ فیصلہ محفوظ کیا جائے گا اور منایا جائے گا، اس وقت تک بھارت اپنے منصوبے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں نا کشمیری ہندئووں کی بستیاں بسا چکا ہوگا، جن میں آر ایس ایس کے غنڈوں کی بڑی تعداد بھی ہوگی؟ اس طرح سلامتی کونسل میں جیسے کشمیر کے بارے میں قراردادیں گذشتہ5دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے لٹکی ہوئی ہیں۔ اسی طرح عالمی عدالت انصاف میں بھی ہوسکتا ہے ؟ پھر اس عدالت کے فیصلے عام طور پر ’’ ہومیو پیتھک ‘‘ ہوتے ہیں جن کا اگر کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو نقصان بھی نہیں ہوتا، اگر فیصلہ پاکستان کے حق میں آگیا تو بھی کیا بھارت اس کو تسلیم کرلے گا اور کیا وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرکے ہندوئوں کی بستیوں کو ختم کردے گا؟ اور پھر عالمی عدالت انصاف میں جانے کے بعد پاکستان باقاعدہ طور پر اس قانونی جنگ کا حصہ بن جائے گا اور بھارت کو بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر کرنے کے لئے یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ابھی معاملہ عالمی عدالت انصاف میں ہے! جب کہ بھارتی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بہت سے سیانوں نے بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے معاملے پر بھارتی سپریم کورٹ سے توقعات وابستہ کرلی ہیں؟ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس کو یقین تھا کہ افضل گرو بے گناہ ہیں مگر اس نے ان کے میڈیا ٹرائل اور ہندو انتہا پسندوں کےدبائو میں آکر انہیں پھانسی کی سزا دی۔ اس سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے؟ کیا اب یہ سپریم کورٹ اتنی بھاری اکثریت رکھنے والے نازی وزیراعظم اور اس کے غنڈوں کی فوج کے سامنے ایک بار پھر بے بس دکھائی نہیں دے گی؟ اگر سپریم کورٹ نے مودی کے فیصلے پر تصدیق کی مہر لگا دی تو کم از کم بھارتی اپوزیشن کی زیادہ ضرور بند ہوجائے گی اور مودی کو کھل کر کشمیر میں غنڈہ گردی کا موقع مل جائے گا۔ دوسری طرف امریکہ بہادر بھی اس وقت انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو ’’حل‘‘ اور اس پر ’’ثالثی‘‘ کرنے پر تل گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں عزیز دوستوں’’ (عمران خان اور مودی) کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یہ کہ وہ اس مسئلے کو ’’حل‘‘ کرکے رہیں گے؟ کرکے رہیں گے؟ خدا خیر کرے۔ ان کی ان باتوں سے یاران وطن کے ان خدشات کو تقویت ملتی نظر آرہی ہیں کہیں خدا نا کردہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی نے مل بیٹھ کر اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ’’حل‘‘ کر ہی نہ دیا ہو؟ اور اب اس پر پاکستان اور عمران خان کو رام کرنے کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہو؟ بعض کشمیریوں اور انتہائی سنجیدہ حلقے تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کشمیریوں کی جدوجہد کیا رخ اختیار کرے گی اور وہ کہاں تک جائیں گے؟۔
تازہ ترین