• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تصویر کا دوسرا رخ… ابرار مغل
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پوری دنیا میں  کشمیریوں کے سفیر کی حیثیت سے بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کا بڑا اعلان کسی پاکستانی وزیراعظم نے پہلی مرتبہ نہیں کیا قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان نے نامساعد حالات کے باوجود بھی کشمیریوں کیلئے دو نہیں بلکہ کئی جنگیں لڑی، اکتوبر1947ء میں پہلی جنگ کے نتیجے میں ریاست کا کچھ حصہ جہاں آج آزاد کشمیر حکومت قائم ہے آزاد ہوا تھا۔ 1965, 1971سمیت درجنوں چھوٹی جھڑپیں بھی کشمیر کی وجہ سے ہوئیں۔ پاکستان اور اس کی قائم ہر دور کی حکومت کی طرح پاکستانی عوام کی کشمیریوں سے عقیدت و محبت کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ پاکستانیوں نے محض زبانی کلامی اور صرف اخلاقی، سفارتی نہیں بلکہ جان اور مال کی عملی قربانیاں پیش کی ہیں۔ عسکری جدوجہد ہو یا مہاجرین جموں و کشمیر کی آبادی، متاثرین LOCکی مدد کا مرحلہ ہو یا پھر کشمیریوں کی آواز کو عالمی سطح پر بلند کرنا پاکستانیوں نے کسی بھی جگہ، موقع، مرحلہ یا پلیٹ فورم پر پیچھے نہیں ہٹے۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آج پاکستان اور پاکستانی عوام کے سوا کشمیریوں کا کوئی سہارا یا ہمدرد سامنے نہیں آیا۔ اس بار بھی جہاں حکومت نے کشمیریوں سے عہدساز اظہار یکجہتی کرکےہرطرح کی مدد کا اعلان کیا بالکل اسی طرح پاکستانی عوام نے بھی سب کچھ چھوڑ کر کشمیری عوام کیلئے باہر نکل آئے۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے یوم آزادی کو کشمیریوں سے منسوب کرکے کشمیری پرچم ہر پاکستانی کے گھر پر لہرایا۔ بھارت کے یوم آزادی پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں نے کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ منا کر کشمیریوں سے اپنی لازوال محبت و عقیدت نبھائی۔ لندن سمیت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پاکستانیوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد سے ہی بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں اور تقریبات میں شرکت کیساتھ ساتھ ممبران پارلیمنٹ سے لابنگ شروع کردی۔ یہ وقت تھا کہ کشمیری پاکستان اور پاکستانی عوام کی ان قربانیوں اور جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کریں لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر حالات اس وقت برمنگھم میں گھمبیر نظرآئے جب ایک تقریب میں پاکستان مخالف تقریر کی گئی۔ قوم پرستانہ نظریہ اور خودمختاری بھی کشمیریوں کا ایک حق ہے لیکن اس کی آڑ میں پاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہہ کر بھارت سے ملانا درست عمل نہ ہے۔ یہی کچھ ہوا برمنگھم کی ایک ایسی تقریب میں جو بظاہر تو کشمیریوں کی حمایت کیلئے منعقد تھی، یہ تو بھلا ہو محب الوطن پاکستانی زاہد چوہدری ایڈووکیٹ کا جنہوں نے موقع پر ہی مزاحمت کردی۔ پاکستان سے جذباتی انداز میں عقیدت و محبت کرنے والے کچھ افراد نے بائیکاٹ کرکے تقریب سے چلے گئے۔ تصویر کا یہ دوسرا رخ بھیانک اور قابل افسوس بھی ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کشمیریوں کیلئے پاکستان اور پاکستانی عوام اپنا سب کچھ، اپنی سلامتی، اپنی معیشت دائو پر لگا کر کشمیریوں کیلئے عملاً میدان میں اتر آئی تو ایسے میں ان کی ساری جدوجہد اور قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی مگر چند بے ضمیر اور بھارتی لابی کے پیروکار تماشائی بنے رہے۔ پاکستان کے نام پر وجود میں آنے والے مقامی پریس کلب کے صدر سمیت مختلف عہدیداران بھی پاکستان کے حق میں ایک لفظ تک نہ بول سکے۔ افسوس صرف اس بات پر ہے کہ بھارتی لابی کشمیریوں کو نظریے کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں مصروف ہے لیکن پاکستان کے نام پر نام نہاد سیاست اور صحافت کرنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں موجودہ حالات اور بھارتی بڑھتی جارحیت میں  کشمیریوں کا ہمدرد اور حمایت کار صرف پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ میں ان سطور کے ذریعے پاکستان اور پاکستانی عوام کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہم اپنے قلم کی سودے بازی اور ضمیرفروشی کی بجائے حقیقت کا ادراک کرکے پاکستان کے نام پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ نظریہ الحاق پاکستان یا خود مختار کشمیر لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب کشمیریوں کو حق خودارادیت ملے گا۔ اس سے پہلے کشمیریوں کو تقسیم کرنے کیلئے یہ نظریات پھیلائے جارہ ہیں۔ اسلئے ہمیں حق خودارادیت کے حصول کیلئے عملاً جدوجہد کرنی ہوگی۔ یاد رکھیں یہ جدوجہد پاکستان اور پاکستانی عوام کی قربانیوں اور بھرپور ساتھ کے بغیر رنگ نہیں لاسکتی۔ اس لئے ہمیں تصویر کے دوسرے رخ کو سامنے رکھ کر ضمیر اور وطن فروشوں پرنظر رکھنی ہوگی ۔
تازہ ترین