• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان مُک مُکا کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ بس ایک ڈیڑھ دہائی پر محیط ہے۔ اس کا آغاز جیل میں ہوا جہاں نوازشریف نے آصف زرداری سے ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی اور آصف زرداری نے ایک بادشاہ کی طرح دوسرے بادشاہ کو فراغ دلی کے ساتھ معاف کر دیا بلکہ سینے سے لگا لیا۔ نوازشریف جب جیل سے جدہ پہنچے تو اس وقت بے نظیر بھٹو لندن میں تھیں انہوں نے آصف زرداری کے کہنے پر نوازشریف کے ساتھ مستقبل میں مُک مُکا کی گفت و شیند شروع کی ۔ رفتہ رفتہ دونوں رہنما ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے۔
دنیا بھر میں پیپلزپارٹی کے لوگوں نے نون لیگ کے لوگوں کو گلے لگانا شروع کردیا۔ ایم آر ڈی نام کے اتحاد میں دونوں جماعتیں شامل ہو گئیں تقریباً ایک سال کے بعد میثاق ِ جمہوریت کا دن آگیا یعنی مُک مُکا کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف میں مذاکرات ہوئے اور این آر او وجود میں آیا۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی جلاوطنی ختم ہوئی اور دونوں پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور نواز شریف نے انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر پھر الیکشن لڑنے پر آمادہ ہو گئے پھر محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں یہ خبر نوازشریف کیلئے بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوئی وہ اسی وقت اس اسپتال میں پہنچے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی لاش پڑی ہوئی تھی اور نوازشریف نے دوبارہ انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا مگر آصف زرداری کے مجبور کرنے پر پھر انتخابی عمل کا حصہ بن گئے۔ مل کر حکومت بنائی حتیٰ کہ آصف زرداری کے کہنے پر پرویز مشرف سے نون لیگ کے وزراء نے بھی حلف اٹھا لئے لیکن پھر یہ طے پا گیا کہ پنجاب کی حکومت نون لیگ کے پاس رہے گی اور وفاق میں نون لیگ اپوزیشن کا رول ادا کرے گی تاکہ کوئی پارٹی سامنے نہ آسکے اور یوں مُک مُکا کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ ہر معاملہ میں بظاہر پیپلزپارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کی مخالف پارٹیوں کے طور پر کام کرنے لگیں لیکن ہر معاملہ اپوزیشن کو ساتھ رکھ کر طے کیا گیا قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے تمام بل دونوں پارٹیاں مل کر بناتی رہیں۔ پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ایک مرتبہ گورنر راج لگا دیا گیا تھا مگر جلد وہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی اور مُک مُکا کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ مُک مُکا سے ہی نوازشریف کو وزیر اعظم بنانے کیلئے یہ قانون پاس ہوا کہ کوئی شخص تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن سکتا ہے یہ الیکشن کمیشن بھی مُک مُکا ہی کا نتیجہ ہے جس کی حفاظت کیلئے نون نے دھرنا دیا۔ نیب کا چیئرمین بھی مُک مُکا سے لگایا گیا تھا جو آج کل دونوں پارٹیوں کی کرپشن کا نگہبان بنا ہوا ہے۔ آئین میں جتنی ترامیم ہوئیں مُک مُکاسے ہی ہوئیں اور مُک مُکا کے مطابق اس مرتبہ حکومت کرنے کی باری نون لیگ کی ہے۔ آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ وعدہ کے مطابق وفاق میں نون لیگ نے ہی حکومت بنائی ہے لیکن مسئلہ وہاں خراب ہوگیا ہے کہ عوام کو آزاد میڈیا نے اس مُک مُکا کی خبر دے دی اور لوگ سوچنے لگے کہ اگلی مرتبہ یہی لوگ اقتدار میں آگئے تو ان کا کیا حشر ہوگا عوام پنجاب میں نون لیگ کی حکومت کو دیکھ چکے ہیں سو عوام نے عمران خان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اوپر سے ڈاکٹر طاہر القادری تشریف لائے ہیں اور نون لیگ پریشان حال ہوگئی کہ ہماری باری پر یہ کیا عذاب نازل ہونے لگے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو کچھ زیادہ پریشانی اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد عزت کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنا ہمارے لئے بہت بڑی بات ہوگی جیسا کہ مُک مُکا میں طے ہے مگر پھر رضا ربانی نے مُک مُکا کا بھرم رکھتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ طویل المیعاد نگران حکومت لانے کی کوشش کی جاری ہے اور نوازشریف بھی بار بار یہی کہہ رہے ہیں مگر دونوں رہنماؤں نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کے مُک مُکا کے درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں پارٹیاں جو اقتدار میں ہیں وہ یہ الزام لگا رہی ہیں،کس پر لگا رہی ہیں یقینا فوج پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو فوری طور پر ان بیانات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ لوگ فوج کو پھر کیوں سیاست میں ملوث کر رہے ہیں
جہاں تک مُک مُکا کی روح کا تعلق ہے تو یہ مُک مُکا اپوزیشن اور حکومت کے درمیان طے پایا ہے کہ دونوں اپنی اپنی حیثیتیں برقرار رکھتے ہوئے اس مُک مُکا پر عمل پیرا رہیں گی۔ دراصل دو پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں پچھلے تیس چالیس سال سے دو طرح کا ووٹ بینک وجود میں آچکا ہے ایک بھٹو کی سوچ سے وابستہ ووٹ بینک اور دوسرا اس کا مخالف ووٹ بینک۔ نواز شریف مخالف ووٹ بینک پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتے ہیں اور آصف زرداری بھٹو کے نام کو کیش کراتے رہنا چاہتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے دونوں پارٹیاں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں وہ جان گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب بھٹو کی نہیں زرداری کی پارٹی ہے اور مسلم لیگ وہ مسلم لیگ نہیں جو قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ تھی یہ نون لیگ ہے یعنی نوازشریف لیگ ۔سو اس مرتبہ دونوں پارٹیوں کی عوام چھٹی کرانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں صرف ایک مسئلہ ہے کہ کچھ علاقوں میں ایسے قانون شکن لوگ امیدوار بن کر سامنے آجاتے ہیں جن کے سامنے غریب عوام مجبور ہو جاتے ہیں، سو کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ قانون شکن لوگ امیدوار نہ بن سکیں اور اس باب میں ٹیکس نادہندگان کو ہی الیکشن سے باہر نکال لینا بہت بڑی بات ہوگی کیونکہ اس عمل سے موجودہ اسمبیلوں میں ستّر فیصد لوگ آوٹ ہوجائیں گے۔
تازہ ترین