• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ پاکستان اب بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے مگر ہمارے ملک نے آبادی کے حوالہ سے خوب ترقی کی ہے اور اب آبادی ہی ملکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لئے خوراک اور شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ صحت کے معاملات میں تمام صوبے بے بس سے نظر آتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں حکمران جماعت اور حاکم خاندان کے سپوت بلاول زرداری دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر تھر میں نومولود بچوں کی مسلسل اموات ان کے دعوئوں کی نفی کرتی ہیں۔ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی شہر کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انتظامیہ اور عوام دونوں ہی بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ جمہوری نظام نے اختیارات کا تماشا بنا دیا ہے۔ شہر کراچی معذور سا نظر آتا ہے۔ اس کی اپنی سیاسی جماعت میں پھوٹ عرصہ سے نظر آ رہی ہے۔

ذکر تھا ترقی کا۔ ملک بھر میں ترقی کا شور گزشتہ کئی سال سے جاری ہے اور ترقی نظر بھی آتی ہے۔ ہمارے سیاست دان اثاثے بنانے اور مزید اثاثے بنانے میں کسی سے کم نہیں اور کوئی احتسابی ادارہ ان سے پوچھ لے تو ان کا تائو دیکھنے والا ہوتا ہے۔ نیب پر سرکار کا کنٹرول فقط انتظامی حد تک ہے مگر ہمارے سیاست دان مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ نیب ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں کے پاس وافر وقت تھا مگر ان کو فقط اپنی ترقی کی فکر لاحق رہی۔ اب ان کو یہ بھی فکر بھی ستا رہی ہے کہ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ وزیراعظم پاکستان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ شکر ہے وزیراعظم پاکستان ان پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ اس وقت سیاسی منظر نامے میں ایک بھی سیاست دان انقلابی نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی انقلابی سیاست دان ہے تو وہ بیچارہ واحد نشست رکھنے والا شیخ رشید ہے۔ ان کو باقی سیاست دانوں کی طرح اپنی زبان پر اختیار نہیں مگر اب کی بار ان میں تبدیلی نمایاں ہے۔ وہ خاصی برداشت کا مظاہرہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ریلوے میں جو کچھ ان سے ہو سکتا ہے، وہ کر رہے ہیں مگر نوکر شاہی اپنے اختیارات سے ان کو پریشان کرتی رہتی ہے۔ تاہم وہ ہمت نہیں ہارے۔ مسئلہ کشمیر کے پرانے وکیل ہیں اور اس کی خاطر حال ہی میں انہوں نے برطانیہ کا پھیرا بھی لگایا۔ برطانیہ میں ان کے دوست اور دشمن بھی بہت ہیں۔ کچھ لوگوں نے ان کو زچ کرنے کا مقابلہ بھی کیا اور ان پر انڈوں کی برسات کر دی۔ آفرین ہے شیخ صاحب پر جو وہ ذرا بھی پریشان ہوئے ہوں۔ آج کل ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہے۔ شیخ صاحب نے اس تصویر پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ فقط اتنا کہا ولایت میں جمہوریت ہے تو سہی مگر نظر نہیں آتی۔ کسی ستم ظریف نے ان کو مشورہ بھی دیا کہ انڈوں کے حملہ کی رپٹ درج کروائیں۔ وہ بھولے ضرور ہیں مگر یہ قانون جانتے ہوں گے کہ برطانیہ میں سیاسی لوگوں کو انڈے مارنا جائز ہے۔ ہاں تصویر کشی کی اجازت نہیں۔ وہ تصویر کے معاملہ پر بھی خاموش ہیں۔ ان کو اندازہ تھا کہ مہربان دوست ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی عوامی رنگ میں نظر آنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں سے ملنے کا مشورہ بھی دیا۔ شیخ رشید ملنے سے تو نہیں گھبراتے مگر ملانے والوں پر اعتبار بھی نہیں کرتے۔ مجھے یاد ہے کئی سال پہلے انہوں نے اپنی کتاب ’’فرزندِ پاکستان‘‘ جب مجھے دی تو دورانِ گفتگو ان کا خیال تھا پاکستان میں سیاست کا پودا محفوظ ہے۔

پاکستان کا سیاسی پودا اتنے انتخابات کے بعد بھی تناور درخت نہیں بن سکا بلکہ جمہوریت کا پودا ایک بڑی جھاڑی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آپ کو درخت اور جھاڑی کا فرق تو معلوم ہوگا۔ جھاڑی کا سایہ نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں کا سیاسی نظام ایک بدانتظام جھاڑی کی صورت میں نمایاں ہے۔ ہمارے سیاسی لوگوں نے اس جھاڑی کو درخت نہیں بننے دیا بلکہ وہ جھاڑی ہی پسند کرتے ہیں۔ ہمارے بیشتر سیاسی لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کو ہمیشہ اہمیت دی۔ یہ لوگ ذاتی حیثیت میں جمہوریت پسند بھی نظر نہیں آتے۔ اس وقت بھی حزب اختلاف کی نمایاں سیاسی جماعتوں میں خاندانی اقرباء پروری نمایاں ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات کروانے کا رواج بھی نہیں۔ ممبر شپ کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی فقط سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور کچھ ایسا ہی حال نواز لیگ کی سیاست کا پنجاب میں نظر آ رہا ہے۔

ہم بات کر رہے ہیں پاکستان میں ترقی اور تبدیلی کے سفر کی۔ ترقی سیاست دانوں نے خوب کی اور لوگوں کو اپنا اتنا گرویدہ بنایا کہ جیل یاترا کے باوجود لوگ ابھی بھی ان کا (اچھے یا بُرے انداز سے) ذکر ضرور کرتے ہیں۔ پھر ہمارے سیاسی ناخدائوں کی اولاد بھی سیاست میں بہت نمایاں ہو رہی ہے۔ ان میں کوئی گُن ہے یا نہیں مگر ان کی زبان کی کاٹ ضرور تیز ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اخلاقیات کا کوئی اصول اور قاعدہ نظر نہیں آتا۔ اسمبلی میں لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ زبان کبھی دکان کے تھڑوں پر استعمال ہوتی تھی مگر ترقی اور سیاسی ترقی کے کارن اس زبان کو فروغ ملا اور یہ زبان اب ہماری اسمبلی میں بولی جاتی ہے۔ اس سے عوام کی شعوری سطح میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔ ترقی کی دوسری شکل یہ ہے کہ عوام میں بھی برداشت نظر نہیں آتی۔ ہمارے ہاں ترقی اور تبدیلی کا یہ سفر جمہوریت کی جھاڑی کو کانٹے دار بنا رہا ہے جو عوام کو کانٹوں پر گھسیٹتی رہتی ہے۔

آج کل وطن عزیز حالت جنگ میں ہے۔ بھارت خطہ میں دھونس اور دھاندلی سے کشمیر کے معاملہ کو خراب کر رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان کشمیر پر بات ضرور کرتے ہیں مگر الزام ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ سبحان اللہ! کیسا سودا ہے کہ آپ کو پسند نہیں، دوسری طرف بھارتی حزب اختلاف ایسا ہی الزام بھارتی وزیراعظم پر لگا رہی ہے اور فریقین کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کی آگ امریکہ نے لگائی ہے تاکہ وہ خاموشی سے کابل کے معاملات طے کرے، یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ بھارت میں کشمیر کے معاملہ پر سپریم کورٹ حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ بھارتی اب پریشان ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جو جمہور کو ہی کچل رہی ہے۔ ہمارے ہاں کشمیر کے سلسلہ میں سرکار خاصی سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ دوسری جانب ملک میں پیچیدہ عدالتی نظام پر نظرثانی ہو رہی ہے۔ اس سے تبدیلی کا سفر آسان ہو جائے گا۔

تازہ ترین