• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانوں سے محبت رکھنے والے شخص کی حیثیت سے درویش کو کشمیری مسلمان ہوں یا جموں کے ہندو پنڈت یا لداخ کے بدھ، سب کے دکھوں کا ادراک و احساس ہے۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ جس کو جون سی سچائی راس آتی ہے یا اُس کے مفادات کی موافقت و مطابقت میں ہوتی ہے اُس کی تو وہ تحسین کرتا ہے جبکہ دوسری سچائیاں یا حقیقتیں وہ چاہتا ہے بیان ہی نہ کی جائیں۔ ایک سچا اور باضمیر قلمکار وہ ہوتا ہے جو ادھوری نہیں پوری سچائی بیان کرتے ہوئے پارٹی بازی کی تنگناؤں سے ماورا ہو جائے لیکن ہمارا سماج شاید ہنوز اُس سطح پر نہیں پہنچا جہاں فکر و نظر کی اس وسعت کو شرفِ قبولیت بخشا جا سکے۔

مسئلہ کشمیر پر غلطیاں اگر انڈیا نے کی ہیں تو کمی ہم نے بھی نہیں چھوڑی، ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ ہم بھارت کی بے اصولیوں کو تو نمک مسالا لگا کر بیان کرتے ہیں مگر اپنی زیادتیوں کا تذکرہ تک نہیں کرتے حالانکہ غلطیاں سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں، اگر اس معاملے میں ہم سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو ہمیں کھل کر ان کا نہ صرف اعتراف کرنا چاہئے بلکہ مستقبل کے حوالے سے ان سے سبق بھی سیکھنا چاہئے۔ اس ضمن میں صحافتی آداب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی دوسرے نقطہ نظر کو بھی سامنے لانے کی گنجائش نکالی جائے۔

تقسیم کے وقت بالفعل تھرڈ آپشن کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ دو قومی نظریہ یہی تھا کہ یا آپ پاکستان کے ساتھ جا سکتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ بشمول کشمیر کئی پرنسز اسٹیٹس یہ آپشن چاہتی تھیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ جو تادیر حالتِ تذبذب میں رہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ شاید اُن کے لئے تھرڈ آپشن کی کوئی گنجائش نکل آئے مگر جب اُن کی ریاست میں زور زبردستی سے قبضہ کرنے والے داخل ہونا شروع ہو گئے تب انہوں نے بھارت سے مدد مانگی جو پنڈت جی غیر مشروط طور پر دینے کو تیار ہو گئے مگر گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ مدد انڈیا کے ساتھ فوری الحاق سے مشروط کر دی جس کی تعمیل ہوئی۔ دراندازی کا یہ پہلا نقصان تھا کہ جو چیز ہم ماقبل از خود طے کر چکے تھے اس کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس یلغار کا نقصان یہ ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کے تمام باسیوں کی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں۔ اُن کی ترقی کا پہیہ ہی جام نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی آزادیوں اور انسانی حقوق کا شکنجہ کستا چلا گیا۔ وہ کشمیر جو کبھی جنت نظیر تھا، دنیا بھر کے باذوق انسان اس کی خوبصورتی سے آنکھیں روشن کرنے کے لئے بے تاب رہتے تھے، اس کی وادیاں اور حسین فضائیں مشرق بعید میں جاپان سے لے کر یورپ اور امریکہ تک سیاحتی شوق رکھنے والوں کو دعوتِ دید دیتی تھیں۔ اس کے دلفریب قدرتی نظارے بالی ووڈ فلموں کو چار چاند لگا دیتے تھے آج اس سیاحتی حب کی دلکشی برباد ہو چکی ہے۔ ظلم و جبر نے سیاحت کی اتنی بڑی انڈسٹری کا خاتمہ کر دیا ہے، تعمیر و ترقی کے تمام منصوبے ٹھپ ہو چکے ہیں۔غربت اور بے روزگاری ہر کشمیری گھرانے کا مقدر بن چکے ہیں، بدقسمت کشمیری نوجوان قابض بھارتی افواج سے بھڑنے سے فرصت پائیں تو کتابیں کھولیں یا اسکولوں اور لائبریریوں کا رخ کریں۔ آج کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کے ترانے گا رہا ہے، وہ انڈیا کی غلامی پر موت کو گلے لگا رہا ہے۔ ہر کشمیری گھر کے سامنے بھارتی فوجی بندوقیں تانے کھڑا ہے، بھارت کا اپنی عسکری خرچ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ کشمیری نوجواں کرفیو کی پابندیاں توڑ کر گھروں سے باہر نکلتے ہیں، اُن کے خوبصورت چہروں پر بھارتی سپاہیوں کی بندوقوں سے چھرے لگتے ہیں۔ کئی نابینا اور کئی زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں تو بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جن کا کوئی نہ کوئی پیارا زندگی سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔ کشمیریوں کے ان دکھوں کو 70سال سے زائد بیت چکے ہیں اُن کی دوسری اور تیسری نسل جدوجہدِ آزادی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

درویش کا اپنا تعلق مریدکے سے ہے، بھلے وقتوں میں ایک کالعدم جماعت کے امیر کا اُن کے مرکز میں انٹرویو کیا، پورا مرکز وزٹ کرنے کے بعد پوچھا کہ آپ کے مرکز میں ایک بڑی بلڈنگ ایسی دیکھی ہے جس میں معذور انسانوں کی حالتِ زار دیکھ کر درویش کی آنکھیں ابل پڑی ہیں، موصوف نے فرمایا کہ جب ہم جہاد کریں گے تو پھر قربانیاں دینا پڑیں گی۔ یہ تو وہ قربانیاں ہیں جو ہمارے لوگ اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے دیتے ہیں، جن زخمیوں کو ان کے ساتھی اٹھا لانے میں کامیاب ہو گئے، ان کی حالتِ زار اس درویش سے دیکھی نہیں گئی۔ اب ذرا سوچیں جو کشمیری نوجوان مستقل وہیں کے باسی ہیں، ان کے جہادی جذبے کو کچلنے کے لئے بھارتی آرمی نے ان مظلومین کی کیا حالت بنا دی ہوگی، کوئی ہے جو ہمارے کشمیری بھائیوں کے دکھوں کا احساس و ادراک کر سکے؟ (جاری ہے)

تازہ ترین