• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر محمد علی شاہ کی وفات نے نہ صرف ان کے دوستوں، فیملی اور کرکٹ کے ساتھیوں کو افسردہ کیا بلکہ وہ ہزاروں مریض جو ان کے دست شفا سے فیضیاب ہوئے اور وہ تمام سیاسی ساتھی، وزراء، اسمبلی کے ممبران جن کو ڈاکٹر محمد علی شاہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، ان کی آنکھوں کو بھی پُرنم کردیا۔ محمد علی شاہ کی باغ و بہار شخصیت نے کسی کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ بیمار ہیں۔ وہ انجکشن لگوانے کے بعد واپس آکر یوں کام میں لگ جاتے تھے کہ انہیں خود بھی احساس نہیں رہتا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔ ان کی ہر سال کی مینگو پارٹی ایک یادگار تقریب تھی اور اسی طرح وہ بہانے بہانے سے دعوتیں کرتے رہتے تھے۔ ان کے جنازے میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی اور مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ میری دعا ہے کہ خدا انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے اور ہم سب نے ایک نہ ایک دن اس جہان فانی سے کوچ کرنا ہے۔ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو مرنے سے پہلے اپنے حصے کا کام کرجاتے ہیں اور اپنے پیچھے بڑا نام اور اچھی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ آج کل تو جہاں جائیں لوگ ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ الیکشن ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اب بدلتے ہوئے حالات میں جب بڑے بڑے لوگوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ کندھے سکیڑ کر آنکھیں مٹکاتے ہوئے ٹیڑھے منہ سے کہتے ہیں ”ففٹی ففٹی“ یعنی کہ الیکشن کے منعقد ہونے کا امکان پچاس فیصد ہے، اس صورتحال کو عام زبان میں غیریقینی صورتحال کہتے ہیں اس صورتحال میں ملک میں نہ تو کوئی سرمایہ کاری ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انویسٹر یا سیاح باہر ملک سے آتا ہے خصوصی طور پر جبکہ آپ کے وزیرداخلہ خونریزی کی پیشگوئیاں میڈیا پر کر رہے ہوں۔ کراچی میں جمعرات کے روز مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی گلوبل ایجوکیشن فیئر اینڈ ایجوکیشن کانفرنسز کا ایک فیئر دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں برطانیہ کی تیس بڑی اور معروف یونیورسٹیوں کے ایڈمیشن آفیسر پہلی مرتبہ پاکستان اتنی بڑی تعداد میں آئے تھے ۔ کچھ یونیورسٹیوں کے نمائندے تھے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اس فیئر سے مستفید ہورہے تھے۔ اس سے پہلے بدھ کی شام کو برٹش ڈپٹی ہائی کمشنر نے مندوبین اور ان کے میزبان فِزا احمد اور دانیال باریجہ کے اعزاز میں برٹش ہائی کمیشن میں ایک ہائی ٹی کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستان کے لئے یہ ایک بڑا اعزاز ہے چلو کسی نے تو کوئی اچھا کام کیا اور ملک کا نام روشن کیا۔ تعلیم سے مجھے یاد آیا کہ جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد علی جو کہ اس وقت ڈین فیکلٹی آف لا کراچی یونیورسٹی ہیں انہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے کراچی یونیورسٹی میں اسکول آف لا کا نوٹیفکیشن جاری کروا دیا ہے۔ اس میں چار طرح کے پروگرام ہوں گے۔ (1) بی اے ایل ایل بی، پانچ سالہ کورس (2) ایل ایل بی تین سالہ کورس (3) ایل ایل ایم کا دو سالہ کورس (4) پی ایچ ڈی۔ یہ نوٹیفیکیشن 4جنوری 2013ء کو جاری ہوا ہے۔ قاضی خالد نے گفتگو کے دوران بتایا کہ کراچی یونیورسٹی جو کہ جون 1951ء میں دو سو طلبہ سے شروع ہوئی تھی اس نے پچھلے61سال میں بے پناہ ترقی کی ہے اور اب اس کے طلبہ کی تعداد 15ہزار ہے۔ اس وقت کراچی یورنیورسٹی کے ساتھ ایس ایم لا کالج اور اسلامیہ لا کالج کا الحاق ہے جبکہ شہر میں اور بھی قانون کی تعلیم کے ادارے ہیں۔ ہمدرد لا اسکول، زیبسٹ لا اسکول لیکول نہ صرف قانون کی اچھی تعلیم دے رہے ہیں بلکہ لندن یونیورسٹی کا کورس بھی دے رہے ہیں۔ ملک میں قانون کی تعلیم جتنی سستی اور عام ہوگی اتنا ہی لوگوں میں اپنے حقوق لینے کے لئے شعور پیدا ہوجائے گا اور پھر اسی طرح انہیں اپنے فرائض منصبی کا بھی ادراک ہوجائے گا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں تعلیم کے شعبے میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بیشتر اسکولوں میں کچھ طاقتور لوگوں نے بھینسوں کے باڑے کھولے ہوئے ہیں یا ان کے نوکر چاکر وہاں سو جاتے ہیں اور بقول الطاف حسین حالی#
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں
تعلیم کی اس زبوں حالی کے دور میں قاضی خالد بھائی کا یونیورسٹی میں لا اسکول کھولنے کا اقدام قابل تحسین ہے اس سے ہمارے طلبہ کو سستے داموں قانون کی اعلیٰ تعلیم مل جائے گی اور اس طرح اچھے طالب علم آئندہ سالوں میں اچھے وکیل اور جج بنیں گے اور جس ملک میں انصاف ہو وہاں معاشرہ خودبخود ترقی کرتا ہے۔ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے لوگوں سے پوچھا تھا کہ کیا انگلینڈ میں عدالتیں کام کررہی ہیں۔ جواب اثبات میں ملا تو اس نے کہا کہ اگر برطانیہ کی عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہم جنگ جیت جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاشرے میں انصاف ہوتا ہے تو معاشرہ شکست نہیں کھاتا۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت گزشتہ دونوں سے کراچی میں ہو رہی ہے۔ جسٹس عارف خلجی صاحب نے کہا کہ لوگ امام ضامن باندھ کر گھروں سے نکلا کریں۔ جسٹس امیر مسلم ہانی نے اے کلاس کرنے والے کیسوں کے بارے میں بہت سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ تفتیشی افسر قتل کے کیس کو ایک ہفتے میں اے کلاس کرکے سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اے کلاس کا مطلب ہوتا ہے کہ کیس میں فی الحال کوئی قابل ذکر شہادت نہیں ہے لہٰذا اسے بند کیا جاتا ہے، جب کوئی شہادت موصول ہوگی تو فائل دوبارہ کھولی جائے گی۔ دوبارہ شہادت آنے سے پہلے مزید نعشیں آجاتی ہیں اور کیس بند کا بند رہتا ہے۔ بی کلاس کا مطلب ہوتا ہے کہ کیس چھوٹا ہے۔ اور ”سی“ کلاس کا مطلب ہے کہ کینسل یعنی کہ ایف آئی آر ختم کردی گئی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پولیس سے اس کا فرائض منصبی ادا کرانے کے لئے بھی سپریم کورٹ کو کہنا پڑتا ہے۔ پولیس افسران میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اپنے ماتحتوں سے خود کام لے سکیں۔ جب سپریم کورٹ حکم دیتی ہے تو ملزمان بھی پکڑے جاتے ہیں، تفتیش بھی مکمل ہوجاتی ہے اور اے کلاس بھی ختم ہوجاتی ہے بقول مرزا غالب
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تازہ ترین