• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکتوبر 2011ء میں کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ سنایا تھا۔ اُس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے سپریم کورٹ کے لارجز بنچ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی دوبارہ سماعت کے دوران ایک فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ وفاق کو کراچی میں قتل و غارت گری روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیا وفاق اُس وقت اقدامات کرے گا جبکہ کراچی جل کر کھنڈر بن جائے گا؟ ایک روز قبل بھی لارجز بنچ کے فاضل ارکان نے کراچی میں جاری قتل و غارت گری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ جس شہر میں 22 ہزار اشتہاری اور مفرور ملزمان آزادانہ گھوم رہے ہوں اور شہری خوف و دہشت کا شکار ہوں ، وہاں شفاف انتخابات کیسے ہوں گے؟ انتظامیہ نے طے کرلیا ہے کہ قاتلوں اور لٹیروں کو نہیں پکڑنا ہے۔ سندھ حکومت اخبارات میں اشتہارات دے دے کہ لوگ اپنی ذمہ داری پر گھروں سے نکلیں۔ فاضل جج صاحبان نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ کراچی میں امن وامان کی امید نظر نہیں آتی، شہری امام ضامن باندھ کر گھروں سے باہر جائیں۔ اپنے مفاد کے لئے ایک روز میں قانون سازی کرنے والوں کو شہر میں قتل و غارت گری روکنے کے لئے قوانین بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں، اللہ ہی حافظ ہے۔
فاضل جج صاحبان کے ان ریمارکس اور آبزرویشنز کے بعد کسی کے لئے کراچی کے حالات کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کراچی تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ صرف اس بات کا اعلان کرنا باقی ہے۔ ڈیڑھ پونے دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں روزانہ لاشیں گرتی ہیں لیکن جو لوگ بچ جاتے ہیں، وہ بھی زندوں میں نہیں ہیں۔ اُن کے اذہان اور قلوب پر موت کی چھاپ ہے۔ کسی کے چہرے پر زندگی کی رمق نہیں ہے۔ یہاں لوگ دل کی بات کہنے اور سچ بولنے کو ترس گئے ہیں۔ یہاں لوگ ہنسنا بھول گئے ہیں۔ یہاں لوگوں کو رونا بھی نہیں آتا۔ زندہ لاشے گھروں سے نکلتے ہیں اور اُن میں سے دس پندرہ یا بیس لاشے روزانہ کفن میں لپیٹ کر دفن کردیئے جاتے ہیں۔ باقی گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ کسی کو اپنے انجام کا پتہ نہیں ہے اور نہ ہی زندگی پر یقین ہے۔ اگر اُن میں کوئی احساس باقی رہ گیا ہے تو وہ یہی ہے کہ اُنہیں تحفظ دینے والا کوئی نہیں ہے اور کوئی یقین سلامت ہے تو وہ یہ ہے کہ دہشت گرد اور غارت گر جو چاہیں، وہی ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کراچی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں انہیں جذبات اور احساسات کا جامہ پہنانے کے لئے کسی برٹرینڈ رسل اور ژاں پال سارتر کی ضرورت ہے۔ کراچی کے لوگ تو اپنی کیفیات بھی بیان نہیں کرسکتے۔
کراچی میں اُن دنوں بھی خونریزی ہورہی تھی جب کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہورہی تھی۔ چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان حکومت اور انتظامیہ کو مسلسل یہ احکامات دیتے رہے کہ قاتلوں کو روکا جائے لیکن قاتلوں کو کوئی ہاتھ نہ روک سکا اور وہ لاشیں گراتے رہے۔ کیس پر فیصلہ آگیا، جس میں کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے رہنما خطوط موجود تھے پھر بھی بدامنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب سوا سال کے بعد سپریم کورٹ کا لارجز بنچ فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لے رہا ہے تو بھی بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔ جس دن جج صاحبان پولیس اور انتظامیہ کو سختی سے احکامات دیتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں، اُسی دن کراچی میں زیادہ خونریزی ہوتی ہے۔ حکومت حالات کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے اور وہ روزانہ اپنی کارکردگی کی ایسی رپورٹیں پیش کرتی ہے، جن پر عدالت مزید برہم ہوجاتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل جج صاحبان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کراچی میں امن وامان کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ عوام تو پہلے سے ہی مایوس ہیں۔
بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کار کراچی سے بھاگ رہے ہیں۔ سرمایہ تیزی سے پاکستان کے دوسرے شہروں اور دوسرے ملکوں میں منتقل ہورہا ہے۔ کراچی میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ قتل و غارت گری پر کبھی کوئی سیاسی جماعت احتجاج کررہی ہوتی ہے اور کبھی کوئی سیاسی جماعت ہڑتال کرا رہی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کراچی آئے روز بند ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے اپنا کاروبار دوسری جگہ منتقل نہیں کرسکتے یا اپنا روزگار نہیں چھوڑ سکتے، وہ بھی تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ ایک زمانے میں کراچی کو غریب کی ماں کہا جاتا تھا۔ اب کراچی اپنے باسیوں کے لئے مقتل بن گیا ہے، جہاں لوگ یا تو قتل کردیئے جاتے ہیں یا وہ سسک سسک کر مررہے ہیں۔ ہڑتالوں، شٹرڈاؤن اور پہیہ جام سے نہ صرف کراچی کا معاشی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے بلکہ پورا ملک اس تباہی کی لپیٹ میں آرہا ہے۔
بیرونی دنیا کراچی کو روئے زمین کے انتہائی خطرناک شہروں میں سرفہرست رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی کی شناخت خونریزی اور افراتفری بن گئی ہے۔ اس شہر کا چہرہ مسخ کردیا گیا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی واضح طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ کراچی کی بدامنی کے اسباب کیا ہیں۔ یہاں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو کبھی سیاسی، کبھی فرقہ وارانہ اور کبھی لسانی رنگ دیا جاتا ہے لیکن گزشتہ 25 سال سے نہ تو یہاں سیاسی فسادات ہوئے، نہ لسانی جھگڑے ہوئے اور نہ ہی فرقہ وارانہ تصادم رونما ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر لوگوں کے درمیان تضادات نہیں ہیں اور نہ کراچی کے لوگ آپس میں لڑنا چاہتے ہیں۔ اُس کے باوجود روزانہ بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ بس یہی ایک بات سمجھنے والی ہے، جسے اب تک پوری طرح کوئی سمجھ نہیں سکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا؟ یہی ایک ایسا سوال ہے، جس کا دیانتداری سے جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی سوال کے جواب میں پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ کے تمام پیچیدہ سوالوں کے جوابات بھی موجود ہیں۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں یہ پتہ بھی چلے گا کہ کراچی کو ان حالات تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ ماضی میں بعض ریاستی اداروں، عدلیہ، میڈیا، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی نے کیا کردار ادا کیا۔ کراچی میں دہشت گردی کس کے مفاد میں ہے۔ کون سی ملکی اور غیر ملکی طاقتیں اس دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں اور حکومتیں حالات کو کنٹرول کرنے میں کیوں بے بس ہیں۔ اسی سوال کے جواب میں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کراچی آج جمہوریت کے لئے مستقل خطرہ کیوں بن گیا ہے اور پاکستان کی معاشی طاقت کا یہ انجن اب اُلٹا کیوں چلنے لگا ہے۔ اسی ایک سوال کے جواب میں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کے طاقتور حلقے کی سوچ کس قدر متعصبانہ ہے اور اُس کے مخصوص مفادات کیا ہیں لیکن اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ جب بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، اُسی وقت کراچی کو مزید خون میں نہلا دیا جائے گا۔ یہ بات ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتی ہے۔ کراچی میں بدامنی پیدا کرنے والے بہت طاقتور ہیں۔ اس امر سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی واقف ہیں۔ حکومت پر اُن کا غصہ بجا ہے لیکن صرف موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ تین عشروں سے ساری حکومتیں ناکام ہوئی ہیں۔ کراچی کے حالات درست ہونے کا پہلا پُرامن اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ تمام محب وطن قوتیں اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ فی الحال یہی ایک طریقہ ہے، ورنہ اللہ ہی حافظ ہے۔
تازہ ترین