• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل (ر) پرویز مشرف نے پاکستان پر آٹھ برس سے کچھ مدت زیادہ حکمرانی کا ناقوس بجایا۔ جنرل کے دورِ حکمرانی کے دوران ہی میں ’’ٹوئن ٹاورز‘‘ کا واقعہ ہوا جس پر امریکی قیادت نے بذریعہ ٹیلیفون ان سے پوچھا ’’ ہمارے ساتھ ہو یا نہیں؟‘‘ جواب دیا گیا ’’تمہارے ساتھ ہیں!‘‘ ابھی تک جنرل کے اس طرز فکر کی حمایت اور مخالفت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ وقت آگے گزر چکا، اسامہ بن لادن کی ہلاکت عمل میں آ چکی، لیبیا، عراق، شام، مصر وغیرہ کی قیادتوں اور سرزمینوں کو خون میں نہلا دیا گیا، بہرحال جو سوال جنرل (ر) پرویز مشرف سے ’’ٹوئن ٹاورز‘‘ کے واقعہ کی تنازعاتی تشریح ابھی تک جاری ہے۔
ایسا ہوتا ہے، تاریخ آگے نکل جاتی ہے، واقعات افراد یا قوموں کی گردنوں کا طوق بن جاتے ہیں، شور شرابے اور عقیدے کی زنجیروں سے بندھے افراد یا قومیں شاذ ہی کبھی ایسے طوق اپنے گلے سے اتارنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں، آپ دیکھ لیں، 69 برس ہونے کو ہیں، ہم نے امریکہ کے خلاف کم از کم ایک ارب دفعہ جہاد کا لفظ بولا اور ہر روز اسے دفن کر کے سوتے ہیں مگر؟ امریکہ اور امریکی پوری طرح ہمارے اندر موجود ہیں، بلا کسی خوف و خطر کے، بلا کسی ہچکچاہٹ کے!
وقت نے چولا بدلا یا تقدیر کا تیر جنرل کے مقدر میں پیوست ہوا، نواز شریف تیسری بار منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار پر براجمان ہوئے، جنرل صاحب لازماً نہیں یقیناً ’’سوشل میڈیا‘‘اور ’’سول سوسائٹی‘‘ کی ’’عوامی اکثریت‘‘ کے بل بوتے پر کراچی تشریف لے آئے، ’’سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی‘‘ تو شے دیگرے ہیں، کمروں میں اور کرسیوں پر آرام سے بیٹھ کر عوام کے درد بانٹنا یا ان کے دکھوں کے علاج تجویز کرنا اپنی جگہ اور سنگلاخ زمینی حقیقتیں اپنی جگہ، چنانچہ اِدھر جنرل صاحب نےکراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا ۔ ادھر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی ’’غائب غلہ‘‘ ہو گئے کمانڈو عوام کو تلاش کر رہا تھا اور عوام وہیں تھے جہاں قومی سیاست کے حقیقی مسافروں کے تھاں ٹھکانے ہوتے ہیں یعنی قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ، کمانڈری تو ایک دفاعی فرض ہے، دھرتی کی حکمرانی ان کے سپرد ہی رہنی چاہئے جنہیں دھرتی کے باشندے حق حکومت تفویض کر دیں! کمانڈروں کا اس دھرتی کا دفاع کرنا ہی ان کے حسن شجاعت کا جواز اور کردار ہے! سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ایک معروف ملاقات کا پھر سے حوالہ دیا جا رہا ہے۔ یہ اس واقعہ کے پس منظر میں موزوں ترین صدائے بازگشت ہے۔ میاں صاحب اور آصف علی زرداری کی سیاق و سباق سے الگ کر کے اس گفتگو کو کسی طور پر سیاسی نہیں کہا جا سکتا۔ مذکورہ ملاقات کا مکالمہ اور انحصار آصف علی زرداری کے کوئی ’’شوخ الفاظ‘‘ نہیں ہیں جیسے اس مکالمے کے سلیس اور خوشگوار اظہاریئے سے تاثر ملتا ہے، اصلاً زرداری صاحب کا یہ کلام پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے سیاسی وژن کا قومی تسلسل ہے جسے پی پی نے جانیں دے کر، برداشت اور در گزر کی بھٹی سے گزرتے ہوئےجاری رکھا تاآنکہ پاکستان کے قریب قریب 69برسوں میں وہ واحد منتخب سربراہ ہیں جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کر کے جمہوریت کو دوبارہ ایک مضبوط پٹری پر ڈال دیا۔ دونوں کے مابین اس حال احوال کی داستان پہلے بھی آن ریکارڈ ہے گزشتہ دنوں بھی دو اخبارات میں مختلف انداز سے دہرائی گئی ہے۔ یہ کہ:’’صدر منتخب ہو جانے کے بعد جب وہ رائے ونڈ نواز شریف صاحب سے ملنے گئے تو وہ بہت ناراض تھے۔ بار بار پنجابی میں گلہ کرتے رہے کہ ’’تسی مشرف نوں کیوں جان دتا‘‘ آصف علی زرداری نے بالآخر دق ہو کر انہیں بتایا کہ ان کی جماعت پہلے ہی ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی صورت میں دو لاشیں اس قوم کی نذر کر چکی ہے (حالانکہ مرتضیٰ بھٹو کی لاش بھی اسی فہرست میں ہے) ’’اب مجھ میں مزید لاشیں اٹھانے کا حوصلہ نہیں رہا‘‘ دوسرے انداز بیاں میں چند جملوں کا اضافہ ہے ’’ایک روز میاں صاحب نے زرداری صاحب سے کہا:’’موقع غنیمت ہے اور حالات سازگار، کیوں نہ آرٹیکل 6کے تحت پرویز مشرف کا مواخذہ کر لیا جائے۔ زرداری صاحب مسکرائے۔ پہلو بدلا اور بولے ’’میاں صاحب میرے باپ نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ اسے ضعیف العمری میں رلانا چاہتے ہیں‘‘ میاں صاحب نے کہا ’’وہ کیسے‘‘ آصف علی زرداری نے کہا ’’بھٹو نے ضیاء الحق سے بگاڑی، وہ جان سے گئے۔ آپ نے مشرف سے چھیڑ چھاڑ کی ’’جلا وطن ہو گئے۔ دونوں مضبوط وزیراعظم قومی سربراہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے میں تو کمزور آدمی ہوں اور اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا! میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ آپ جب اقتدار میں آئیں تو یہ شوق پورا کر لینا۔ مجھے معاف ہی رکھیں۔‘‘ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے مابین مکالمے کے ان لمحات کی رمزیت کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روس کے معجز نما ناول نگار اور شاعر نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا، اس کی نبض پہ انگلی رکھیں ۔ رسول حمزہ توف کا کہنا ہے:۔
’’جن دنوں میں ماسکو میں زیر تعلیم تھا، ابا نے گرم کوٹ خریدنے کے لئے مجھے کچھ پیسے بھیجے۔ بات کچھ ایسی ہوئی کہ پیسے خرچ ہو گئے اور میں کوٹ نہ خرید سکا۔ سردی کی چھٹیاں گزارنے کے لئے مجھے داغستان آنا پڑا بدن پر وہی کپڑے تھے جنہیں پہن کر گرمیوں میں ماسکو کے لئے روانہ ہوا تھا۔ گھر پہنچا تو میں نے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈے مگر ہر بہانہ پہلے سے زیادہ مضحکہ خیز اور ناقابل اعتبار تھا جب میں خود کو پوری طرح اس جال میں الجھا چکا تو ابا نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:۔
’’بس کرو! رسول! میں تم سے صرف دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں‘‘
’’فرمایئے!‘‘
’’تم نے کوٹ خرید اتھا یا نہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’اور پیسے خرچ کر دیئے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’بس بات صاف ہو گئی۔ اگر بات دو جملوں میں کہی جا سکتی ہے تو اتنے الفاظ ضائع کرنے اور لمبی چوڑی تمہید باندھنے سے کیا فائدہ‘‘
جنرل (ر) پرویز مشرف کی روانگی کو اس ادبی استعارہ کی گرہ میں باندھ کر دیکھیں، ایک ’’ن‘‘ لیگی سے پوچھیں۔
س:۔ جنرل (ر) پرویز مشرف روانہ ہو گئے؟
ج:۔ جی ہاں، چلے گئے۔
اور اب پیپلز پارٹی، ق لیگ، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (خصوصاً فضل الرحمٰن گروپ) اے این پی، جمہوری وطن پارٹی کو سامنے رکھیں، اور فرض کر لیں یہ سب اکٹھے آپ کے ہاتھ لگ گئے ہیں، ان سے سوال کریں۔
س:۔ کیا آپ لوگ اقتدار میں ہو کے جنرل (ر) مشرف کو بیرون ملک جانے سے روک سکتے تھے؟
ج:۔ ’’نہیں!‘‘
س:۔ پھر ملک میں شور و غوغا اور بحث و تنازعے کا ہنگامہ کیوں برپا ہے؟
ج:۔ خاموشی، تھوڑی دیر بعد، آئیں، بائیں، شائیں، سب آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا آپ آصف علی زرداری کی سوچ کے گہرے پانیوں تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں؟
رسول حمزہ توف کے ابا موجود تھے، انہوں نے اپنے بیٹے کو وقوعہ کی حقانیت مجسم کر کے دکھا دی، ہماری قومی سیاست کے ابا، قریب قریب اڑسٹھ برس پہلے ہمیں خدا حافظ کہہ گئے، انسانی تاریخ میں یتیمی کا دربدر ہونا اکثر و بیشتر تسلیم شدہ ٹھہرتا ہے، اسی لئے چوہدری نثار، خورشید شاہ، رانا ثناء اللہ، سراج الحق، احسن اقبال وغیرہ وغیرہ اور مزید بھی وغیرہ ہی کے سوا کچھ نہیں، جنرل (ر) مشرف کی سیاست یا شخصیت اول روز سے ہی یتیم نہیں تھی اور جن کے وارث ہوں وہ گلیوں میں ’’ککھاں توں ھولے نہیں ہوندے!‘‘
’’ن‘‘ لیگیوں سمیت قومی سیاستدانوں، اکثر دانشوروں اور کالم نگاروں کا ردعمل رسول حمزہ توف جیسے بہانے ہیں، گرم سوٹ وہ خرید نہ سکے جس کے لئے انہوں نے والد صاحب سے پیسے لئے تھے اور بہانوں کی برسات برسا دی، جنرل (ر) مشرف کو آئین کی طاقت روک نہیں سکی، منتخب حکومت اور عوام کی جمہوری اجتماعیت سامنے نہیں آئی، اب جو کچھ کہا جا رہا ہے کیا جا رہا ہے، وہ بہانے ہیں، اصل قصہ اتنا ہی ہے پیسے ملے تھے، سوٹ نہیں خریدا جا سکا، آئین موجود ہے، جنرل (ر) کو روکا نہیں جا سکا۔
لیکن نواز شریف کو ہدف بنانے سے پہلے ہمیں ایک سچائی کی نفی ثابت کرنا ہو گی یعنی:۔
’’اگر تم ماضی کو پستول کا نشانہ بنائو گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانہ بنائے گا‘‘
تازہ ترین