• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے یکے بعد دیگرے ”سازشی عناصر“ کو خبردار کیا ہے کہ انتخابات کو کسی بھی قیمت پر ملتوی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس سے پہلے سینیٹ میں پی پی پی کے واحد سوچ سمجھ رکھنے والے رہنما رضا ربانی ، جنہوں نے جمہوریت کے استحکام اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لئے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا، نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کچھ ”نادیدہ قوتیں“ ماہرین پر مشتمل نگران سیٹ اپ لا کر دو یا تین سال کے لئے انتخابات کو التوا میں ڈالنا چاہتی ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کو کون ملتوی کرانا چاہتا ہے؟ یہ رہنما اگر سازشوں کے سائے گہرے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو سازش کرنے والوں کا نام کیوں نہیں لیتے یا سازشوں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے؟ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو نواز شریف کے ذہن میں ہو گا کہ صدر زرداری انتخابات کو التوا میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ کسی بہانے سے اسمبلیوں کی مدت کو طول دیا جائے اور انہی سے خود کو دوسری مدت کے لئے صدر منتخب کرا لیا جائے کیونکہ ان کے صدراتی عہدے کی مدت اس سال ستمبر میں ختم ہو رہی ہے تاہم یہ پلان حقیقت سے دور نظر آتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان تناؤ اس قدر شدید ہے کہ عدالت کبھی بھی حکومت کو کسی غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کے علاوہ صدر زرداری کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کو ان کی آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہونے اور نئے انتخابات کی طرف جانے سے روک سکیں اور اگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پی پی پی یا اس کی اتحادی جماعتوں کو مطلوبہ اکثریت نہیں ملتی تو زرداری صاحب خود کو منتخب نہیں کرا سکیں گے۔ چونکہ نواز شریف اس تمام صورتحال کو جانتے ہیں اس لئے وہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی ”سازش “(اگر کوئی ہے) کا ذمہ دار زرداری صاحب کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ مسٹر نواز شریف کا خیال ہو کہ دفاعی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ایسا کرنا چاہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ آرمی چیف کیانی صاحب کے عہدے کی مدت اس سال نومبر میں ختم ہو رہی ہے اور یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی وجہ کی بنیاد پر ایک اور ”تین سالہ “ توسیع لینا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی گہرا ہے کہ دفاعی ادارے نواز شریف کو آگے نہیں آنے دینا چاہتے کیونکہ نواز شریف فوج کے اعلیٰ افسران کا حجم کم کرتے ہوئے اس کو سویلین قیادت کے ماتحت لانا چاہتے ہیں۔ اب اگر جنرل کیانی کی آصف علی زرداری کے ساتھ کوئی ”ملی بھگت “ ہے تو وہ دونوں باہمی مفاد کیلئے انتخابات کو التوا میں ڈالنے کا کوئی منصوبہ بنا سکتے ہیں تاہم سازش کی اس تھیوری کے راستے میں ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ ایک بھاری رکاوٹ ہے کیونکہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بے شک ، کوئی فاطر العقل ہی طاقتور عدلیہ، جاندار میڈیا اور پی ایم ایل (ن) کو دباتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوشش کرے گا۔
دوسری طرف پی پی پی کو نواز شریف سے زیادہ سپریم کورٹ اور دفاعی اداروں کی طرف سے خدشہ ہے کیونکہ ابھی بھی فضا میں بنگلہ دیشی ماڈل (جب بنگلہ دیش میں فوج اور سپریم کورٹ نے باہم اشترا ک سے ماہرین پر مبنی نگران حکومت قائم کرتے ہوئے دونوں بیگمات کا اقتدار میں آنے کا راستہ روک لیا)کی بازگشت موجود ہے۔ اس تھیوری کے تحت اگر حکومت اور اپوزیشن اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں کسی نگران سیٹ اپ پر متفق نہ ہوں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت آئینی اختیار ہوگا کہ وہ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کر لے۔ اس سے سپریم کورٹ کو نگران حکومت پر کنٹرول حاصل ہوجائے گا پھر یہ وہ وقت ہوگا جب سپریم کورٹ کی اجازت سے انتخابات کو التوا میں ڈالا جاسکتا ہے۔اس سے دفاعی ادارے بھی خوش ہوں گے اگر مسٹر نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے امکان کو ختم کیا جاسکے اور سپریم کورٹ زرداری صاحب کو چلتا کرے۔ اس سے دونوں چیف صاحبان کے عہدے کی مدت میں من پسند توسیع ہوجائے گی جبکہ وہ پوری توجہ کے ساتھ ملک کی دگرگوں معاشی حالت کو سدھارنے کے لئے اہم فیصلے، جو کئی سالوں سے التوا کا شکار ہیں، کر سکیں گے۔
بدقسمتی سے حالیہ دنوں پیش آنے والے کچھ اہم واقعات ان خدشات کی تصدیق کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے کوئی اتفاق نہیں ہوا ہے اگرچہ حکومت موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے والی ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی طرف سے آنے والے ایک حالیہ بیان کے مطابق طرفین کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کی وجہ سے ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے، چنانچہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن ہی نمٹائے گا تاہم پی پی پی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جو پارلیمینٹ سے باہر ہیں، جیسا کہ عمران خان کی تحریک انصاف ، الیکشن کمیشن پر الزام لگا رہی ہیں کہ اس کا جھکاؤ نواز شریف کی طرف ہے ۔ اس نے نواز شریف کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اب سرکاری ملازمتیں دینے پر پابندی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی فنڈز کو بھی منجمد کیا جائے کیونکہ یہ ”قبل از وقت دھاندلی “ کے زمرے میں آتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کی تشکیل ِ نو کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی دی جانے والی پٹیشن کی منظوری کے ساتھ ہی اس مطالبے میں شدت آجائے گی کہ الیکشن کمیشن کو طاقتور اور غیر جانبدار ہونا چاہئے کیونکہ ڈاکٹر صاحب گزشتہ ماہ لانگ مارچ کے ذریعے عوام کو ان معاملات پر ”بیدار“ کر چکے ہیں۔ اب اگر سپریم کورٹ موجودہ الیکشن کمیشن کے خلاف فیصلہ سناتی ہے اور دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن تازہ انتخابات کے لئے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے لئے درکار اتفاق کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو آئینی جمود پیدا ہو جائے گا۔ اس سے گیند سپریم کورٹ کے ”کورٹ “ میں چلی جائے گی کہ وہ بنگلہ دیشی ماڈل کی راہ ہموار کرے۔
دوسری طرف پی ایم ایل (ن) انتخابات میں کسی بھی التوا کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس وقت عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے اور یہ اس کے اقتدار میں آنے کا سنہری موقع ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی انتخابات چاہتی ہے کیونکہ اُن کو بھی اپنی انقلابی کامیابی کا زعم ہے۔ اسی دوران پی پی پی بھی انتخابات چاہتی ہے کیونکہ وہ دیکھ رہی ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن) ایک دوسرے کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچا کر اس کے اقتدار کی راہ ہموار کر دیں گے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات سے قبل وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح کی محاذآرائی میں الجھ گئے ہیں کہ اُنہوں نے جمہوری عمل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد تازہ انتخابات کی طرف جارہی ہے۔
تازہ ترین