• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ،بالآخر ہم امریکیوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔ایک برادر اسلامی ملک،جس نے حال ہی میں امریکہ سے 60بلین ڈالر کے جنگی سازو سامان کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے ۔مرحبا !آپ میں سے جو لوگ میری طرح بلین اور ملین کا فرق نہیں سمجھتے ،ان کی آسانی کے لئے یہ فارمولا پیش خدمت ہے :ایک بلین =ایک ارب ،ایک ڈالر= 100روپے، 60بلین ڈالر = 60 x 100 x 1000000000 = 60کھرب روپے۔مبارک یا اخی !یہ امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسلحے کا معاہدہ ہے جس کے تحت امریکہ ہمارے بھائی جان کو 84بوئنگ F-15 طیارے، 70بوئنگ اپاچی ہیلی کاپٹرز اور 36 AH-6Mلٹل برڈ ہیلی کاپٹرزفروخت کرے گا،اس کے علاوہ پہلے سے موجود 70 ایف 15طیاروں کو اپ گریڈ بھی کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ اگر بڑے بھائی چاہیں تو امریکی کمپنی سے 72بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز بھی خرید سکتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ امریکی عہدے دار مزید 30 ارب ڈالر کی ایک اور ڈیل کے بارے میں بھی مذاکرات کر رہے ہیں جسکے تحت ہمارے برادر اسلامی ملک کی نیوی کو اپ گریڈ کیا جاسکے گا ۔امریکیوں نے اس ڈیل پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے مسرت کا اظہار کیا ہے کہ اس سے انکے ملک میں بوئنگ اور UTCجیسی کمپنیوں میں ہزاروں لوگوں کو نیا روزگار ملے گا۔ بیچارے امریکی، نوکریوں سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتے ۔انہیں پتہ ہی نہیں کہ فی زمانہ سب سے بڑا ہتھیار سچ مچ والا ہتھیار ہوتا ہے باقی سب ڈھکوسلہ ہے ۔
قطع نظر اس بات سے کہ یہ تمام جنگی ساز و سامان کس ملک سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے خریدا جا رہا ہے یا ممکنہ طور پر کس ملک کے خلاف استعمال ہوگا، ہمیں اس پر خوشی کا اظہار ہی کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ۔ہم تو ایک مراثی قسم کی قوم ہیں جو چوہدریوں کی دعوت پر چموٹا لے کے حاضر ہو جاتے ہیں اور اس امید پر خوشامدانہ جگتے کرتے ہیں کہ شاید واپسی پر ہمیں بخشیش کے طور پر تھوڑا بہت پٹرول مفت مل جائے ۔ہماری کیا مجال جو یہ مشورہ دیں کہ حضور والا ،آپ اَن داتا ہیں ،آپ چاہتے تو ان 60ارب ڈالر کا اسلامی دنیا میں کوئی انڈومنٹ فنڈ قائم کردیتے جس سے کم از کم سالانہ 12ارب ڈالر کی آمدن ہوتی جس سے اسلامی دنیا میں غربت کا خاتمہ ہو سکتا تھا،جہالت دور ہو سکتی تھی ،سینکڑوں ہسپتال ،یونیورسٹیاں اور کالج بنائے جا سکتے تھے لیکن آپ بڑے ہیں ،یقینا آپ نے سوچ سمجھ کر ہی یہ جنگی سازو سامان خریدا ہوگا ۔ویسے ہم نے تو سن کر رکھا تھا کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی،شاید اسی لئے آپ کی اسلحے کی ڈیل میں کوئی ”تیغ“ شامل نہیں ہے ۔
ویسے سچی بات ہے کہ یہ انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے والی بات بھی جھک مارنے کے مترادف ہے کیونکہ اسلامی دنیا میں نہایت جدید اور بہترین یونیورسٹیاں موجود ہیں جن میں قطر اور اومان کے علاوہ خود ،شاہ سعود یونیورسٹی ،ریاض شامل ہے جو 2.7ارب ڈالر کے انڈومنٹ فنڈ سے قائم کی گئی ہے۔لیکن رونا اس بات کا ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں وہ ذہن پروان نہیں چڑھتے جو ہاوردڑ ،ییل، ایم آئی ٹی یا سٹینفورڈ یونیورسٹی پیدا کرتی ہیں ۔اکیلی ہاورڈ یونیورسٹی کا انڈومنٹ فنڈ 30ارب ڈالر ہے جبکہ سٹینفورڈ کا 17ارب ڈالر ،ایم آئی ٹی کا 10ارب ڈالر اور ییل یونیورسٹی کا انڈومنٹ فنڈ 19ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔لیکن بات صرف پیسے کی نہیں ،پیسہ تو اسلامی دنیا میں بھی ہے اور الحمدللہ اسلحے پر خرچ کرنے کے باوجود اچھا خاصا بچ جاتا ہے جس سے یونیورسٹیاں بھی قائم ہو رہی ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بھی اسلامی یونیورسٹی ایسی نہیں جس نے نوبل انعام جیتا ہو جبکہ دوسری طرف جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ اپنی جھولی میں 13نوبل انعام سجائے بیٹھی ہے !
وجہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر شان و شوکت،آرکیٹکچر اور بظاہر جدید ماحول کے باوجود عالم اسلام میں قائم شدہ یونیورسٹیاں نئی سوچ کو پنپنے کا موقع نہیں دیتیں ۔ان کے ہاں اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی آزادی نہیں،تحقیق کی پابندیاں ہیں،آزاد فکر کے پھلنے پھولنے کے مواقع نہیں ہیں ،critical thining کا رواج نہیں ہے ۔ان حالات میں کوئی نیا فلسفہ کوئی نئی سوچ ،سوشل سائنس کی کوئی نئی تھیوری کیسے جنم لے سکتی ہے ؟مثلا ً اسلامی دنیا میں قائم شدہ ایک جدید ترین یونیورسٹی میں امریکی ریاست ٹیکساس کی تاریخ اور نظام حکومت پڑھا یا جاتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ اس ہو میوپیتھک قسم کی تعلیم سے وہاں قائم ملوکیت اور شخصی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ۔فری آئیڈیا اور ریڈیکل تھنکنگ نام کی کوئی چیز مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں میں نہیں پائی جاتی اور جب تک یہ جمود طاری رہے گا ،ہم ایک انچ بھی ترقی نہیں کر سکیں گے چاہے اس طرح کی بیسیو ں یونیورسٹیاں اربوں ڈالر کے انڈو منٹ فنڈ سے قائم کر دی جائیں ۔
ایک اور تھیوری ہمارے ہاں بہت مقبول ہے کہ جب تک مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کریں گے تب تک کافروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہیں گے ۔یہ بھی خاصی مخولیا بات ہے ۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سائنس کی وہ کون سی ایجاد ہے جو ہم استعمال نہیں کرتے ؟ کیا ہمارے ملک میں وہ تمام سائنسی کھلونے بازاروں میں عام دستیاب نہیں جو باہر کے ملکوں میں بھی ملتے ہیں ؟ کیا پیسے خرچ کرکے ہمارے ملک میں زیر زمین میٹر و نہیں بن سکتا جیسا لندن ،پیرس ،واشنگٹن اور دبئی میں ہے ؟آخر یہ سب سائنس کے ہی کمالا ت ہیں ۔کیا دنیا میں کوئی ایسی ایجاد یا کوئی ایسی مشین ہے جس کی نقل چین میں نہ تیار ہوتی ہو؟مگر چین خود کچھ ایجاد نہیں کر رہا ،تمام آئیڈیاز سیلیکون ویلی سے ہی آتے ہیں ۔اس لئے کہ محض سائنس کی ترقی سوشل سائنسز میں ترقی کے بغیر بیکار ہے ۔معاشرو ں میں تبدیلی ہمیشہ نئے فلسفے ،جدید فکر اور صدیوں سے قائم شدہ نظریات کی ساکھ کو چیلنج کرنے اور اس پر قائم شدہ اتھارٹی پر سوال اٹھانے سے ہی آتی ہے ۔اگر فقط سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھنے سے ہی مسئلہ حل ہو تاتو اب تک حل ہو چکا ہوتا ۔کیا چین میں کبھی کوئی تازہ فکر کی نوید سنی گئی ،کیا ماضی قریب میں وہاں کوئی نئی فلسفیانہ تھیوری وجود میں آئی ؟ نہیں ۔اسی لئے انہوں نے اب تک اپنا کچھ ایجاد بھی نہیں،وہ صرف کاپی کرتے ہیں ،ایجاد سیلیکون ویلی میں ہوتی ہے۔
ویسے ہم ایک لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت میں زندہ ہیں۔اس جمہوریت کو ہم آئے دن یوں صلواتیں سناتے ہیں جیسے کوئی ظالم ساس لڑکا پیدا نہ کرنے پر بہو کو سناتی ہے ۔لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تمام تر گھٹن اور انواع و اقسام کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود یہاں طرز حکمرانی کو چیلنج کیا جاتا ہے ، مختلف نظریات پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں میں نئی سوچ کو خوش آئند سمجھا جاتا ہے ۔ایسی کوئی سہولت ان اسلامی ممالک میں میسر نہیں جہاں شخصی حکمرانی اور ملوکیت قائم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اندھا دھند پیسہ ہونے کے باوجود وہ امریکیوں کے محتاج ہیں۔دوسر ی طرف ہم امریکیوں کے تلوے چاٹنے پر اس لئے مجبور ہیں کیونکہ ہمارا نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس جاہل عوا م کے لئے جمہوریت بنی ہی نہیں ،جانوروں کے اس ریوڑ کو ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہئے ،ہم ترقی اسی صورت میں کر سکتے ہیں اگر ملک میں کوئی ”اچھا آمر“ آئے اور ان ”پڑھے لکھے سائنس دانوں“ کو ساتھ ملا کر تاحیات حکومت کرے۔ان کے تئیں مسئلہ چونکہ صرف سائنس کا ہے لہٰذا یہ ”سائنس دان“ اسے بخوبی حل کر لیں گے ۔ہم چونکہ خوش کن خواب دیکھنے کے عادی ہیں سو جوپڑھا لکھا کن ٹٹا بھی ہمیں یہ خواب دکھاتا ہے ،ہم اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔دس سال بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ٹرک کی بتی تھی !
تازہ ترین