• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ صبح ہونے میں کچھ ہی گھنٹے باقی ہیں۔ ہمارا پڑاؤ کسی ایک جگہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ فجر سے نکلتے ہیں، پھر رات گئے کسی ایک محفوظ جگہ ٹھہر جاتے ہیںاوروہیں قضانمازبھی ادا کرلیتے ہیں ۔پچھلے دودنوں سے ہم مسلسل چلے جا رہے ہیں ، اس لیے آج ایک مقام پر رُکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ راستے اتنے دشوار گزار ہیں کہ یہاں کوئی گاڑی، جیپ نہیں پہنچ سکتی، اس لیے ہم پیدل ہی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ابھی کھانا، کھایا اور ٹولیوں کی صُورت کیمپوں میں تھوڑی دیر آرام کرنے آئےہیں، توسوچا کیوں نہ تم سے چندباتیں کرلوں، تم تو جانتی ہوناں، مجھے اپنے خیالات کو الفاظ میں ڈھالنا کتنا پسند ہے۔عائشہ! یہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیںناں، آسان نہیں ۔ دشمن، دوستوں میں اس طرح گُھل مِل کر رہتا ہےکہ اسے پہچاننا اور پکڑنا بہت مشکل ہے۔ مگر یقین کرو، میرے جوانوں کا جذبہ کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔ ایسا لگتا ہے، فولاد سے بنے ہیں، کہتے ہیں ’’سر! آپ ہمارے چہروں پر کبھی تھکان نہیں دیکھیں گے، اس وطن کی حفاظت کی قسم کھائی ہے، جو شہادت سے وفا کریں گے۔‘‘ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی نئی نویلی دلہن چھوڑ کر آیا ہے، کوئی اپنے والدین کا اکلوتا وارث ہے، تو کوئی اپنی بیٹی کی پیدائش پر گھر بھی نہیں جا سکاکہ ہم گھر سے کفن باندھ کر نکلے ہیں۔اچھا چلو ،میری باتیں چھوڑو، تم بتاؤ گھر میں سب کیسے ہیں؟ امّی جی ، تو یقیناً میری روانگی کے بعد سے مصلیٰ سنبھالے بیٹھی ہوں گی، مَیںنے ان سے کبھی کہا نہیں ، مگر جب کسی آپریشن پر نکلتا ہوں ، تو ان کی آنکھوںکی طرف نہیں دیکھتا کہ اُن میں آنسو مجھ سے دیکھے نہیں جاتے، تم انہیں سمجھایا کرو کہ فوجیوں کی مائیں کم زور دل نہیں ہوتیں۔ ارے ہاں! یہ تو بتاؤ، بلال کیا کر رہا ہے؟ یقیناً تمہارے موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف ہوگا،سنو! اُسے موبائل زیادہ مت دیا کرو، اس طرح وہ فزیکل گیمز سے دور ہوجائے گا، اس مرتبہ اُس کے میتھس میں کتنے مارکس آئے؟ وہ میتھس میں کمزور ہے، مَیں نہیں چاہتا کہ وہ کسی بھی میدان میں پیچھے رہے۔ ویسے تو مجھے معلوم ہے کہ امّی جی اس کی اخلاقی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہنے دیں گی، مگر پوتے کے پیار میں اس کی بد تمیزیاں نظر انداز کر جاتی ہیں، توتم اس معاملے میں کبھی کوتاہی مت برتنا۔ارے ہاں! مَیں تو بتانا ہی بھول گیا، چھے ستمبر پر اسکول میں ہونے والے ٹیبلو کی جو تصویریں تم نے بھیجی تھیں، وہ بہت اچھی لگیں، ہمارے ’’میجر بلال‘‘ پر خاکی وردی بہت جچتی ہے ۔ مَیں اسے ایک بہادر فوجی کے رُوپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر ان تصویروں میں مجھے تم بالکل اچھی نہیں لگیں۔عائشہ میڈم ! مَیں نے آپ سے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ہلکے رنگ کا لباس مت پہنا کریں، یہ پھیکے رنگ آپ پر بالکل نہیں جچتے، آپ تو ہمیشہ شو خ وچنچل رنگوں ہی میں اچھی لگتی ہیں۔ دیکھو ،ابھی ایک سپاہی میرے لیے گرما گرم چائے بنا کر لایا ہے، لکڑی پر بنی اس چائے کا مزا تمہارے ہاتھ کی چائے جیسا تو نہیں ، مگر پانچ دن بعد نصیب ہوئی ہے، توبہت اچھی لگ رہی ہے۔اب تم ساری رات یہ سوچنے میں مت گزاردینا کہ مَیں بھوکا، پیاسا رہتاہوں۔ کیوں کہ جب تم پریشان ہوتی ہو، تمہارے چہرے کے رنگ اڑ جاتے ہیں،تم خاموش ہوجاتی ہو اور تمہارابے رنگ چہرہ، خاموشی مجھے بالکل پسند نہیں۔چلو ،اب کافی دیر ہوگئی ہے، مجھے بھی نیند آرہی ہے۔ بس اتنا کہنا ہے کہ تم اپنا اور گھر میں سب کا خیال رکھنا۔ اُمید ہے کہ جو مشن ہمیں دیا گیا ہے، ان شاء اللہ چند روز میں مکمل ہو جائے گا اور میں جلدتم لوگوں کے درمیان ہوں گا۔‘‘میجر طارق نے خط بند کرکےاحتیاط سے لفافے میں ڈالا اور سونے لیٹ گئے۔

میجر طارق نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ مشن مکمل ہو تے ہی گھر لوٹ آئے۔ مجاہد جب فاتح لوٹتا ہے، تو اس کے چہرے کا نور ہر سُو بکھر جاتا ہے۔ میجر صاحب کے استقبال کے لیے گاؤں میں ایک ہجوم لگا تھا،ہر کوئی گاؤں کےبہادر سپوت کی ایک جھلک دیکھنےکوبے چین تھا۔ سب ان کی بہادری ، جواں مَردی، شجاعت اور حبّ الوطنی کی باتیں کر رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا،’’ میرے بچپن کا یار ہے، ہم اکٹھے اسکول جاتے تھے‘‘، ایک بوڑھی ماں بولیں’’بچپن میں اسے میرے ہاتھ کے پراٹھے بہت پسند تھے، ہمیشہ میرے گھر آکر کھاتا ۔‘‘سب اُن سے اپنی واقفیت اور اپنائیت کے قصّے سُنارہے تھےاور میجر صاحب گھر کے صحن میں سبز ہلالی پرچم میں لپٹے انتہائی پُرسکون نیند سو رہے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ’’ لوگو! مَیںنے مٹّی سے محبت کا قرض ادا کر دیا ہے۔ دیکھو ،مَیں نے تمہارا ’’کل‘‘ سنوارنے کے لیے اپنا آج قربان کر دیا ہے ۔ اب تمہیں میری اور میرے جیسے اَن گنت سپاہیوں کی قربانیوں کی لاج رکھنی ہے۔ ہمارے خون کو رائیگاں مت جانے دینا، اس مُلک کو بامِ عروج پر پہنچانے کے لیے کبھی شر پسند عناصر کے ہاتھوں کھلونا مت بن جانا۔ ‘‘اور میجر طارق شہید کے جسد ِخاکی، کے ایک جانب بکھرے بالوں، ساکت وجود کے ساتھ بہت ہلکے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس عائشہ کی متورّم آنکھیں بس یک ٹک اُس خط پر جمی تھیں، جو میجر صاحب کی اس کے لیے آخری تحریر تھی۔میجر طارق شہید کا جنازہ گھر سےنکلتے ہی عائشہ کا صبر بھی جواب دے گیا۔وہ گھر جو کبھی قہقہوں، مسکراہٹوں سے گونجتا تھا، آج سسکیوں، ہچکیوں اور چیخوں سے دہل کے رہ گیا۔بلال اپنے بابا کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپر دِخاک ہوتا دیکھ کریہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔ ہاں یہ خوشی ضرور تھی کہ اُس کے بابا کو اتنی عزت مل رہی ہے۔وہ سوچ رہا تھا،’’مَیںبھی اپنے بابا ہی کی طرح ایک نڈر فوجی بنوں گااور اس مُلک کا نام روشن کروں گا۔‘‘

یہ کہانی کسی ایک فوجی گھرانے کی نہیں ۔ اس وطنِ عزیز کی سلامتی کی خاطر اب تک نہ جانے کتنے بہادر سپوتوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے اور کر رہے ہیں۔ عائشہ جیسی اَن گنت لڑکیاں جوانی میں بیوگی کی اذّیت سہہ رہی ہیں۔ بوڑھے والدین اپنی جوان اولاد کو کاندھا دے رہے ہیں، بلال جیسے معصوم بچّے کم عُمری میںباپ کی شفقت اورساتھ سے محروم ہیں،لیکن ہماری ماؤں کے حوصلے پھر بھی بلند ہیں۔ وہ ایک بیٹے کی شہادت کے بعد دوسرے کو بھی وطن پر قربان ہونے کا درس دیتی ہیں۔ہمارے فوجیوں کی مائیں، خود بھی کسی فوجی سے کم نہیں۔یقین جانیے، انہیں کسی پلاٹ، گاڑی، تمغے یا اعزاز کا لالچ نہیں ہوتاکہ کوئی ماں،بیوی کاغذکے چند ٹکڑوں کی خاطر اپنی چھپّر چھاؤں، بڑھاپے کا اثاثہ قربان نہیں کر سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ فوجی یا فوجی کے اہلِ خانہ ہوناایک لیبل نہیں ،اعزاز ہے۔

؎ ہل جاتی ہے ہر دستک پر… ماں کو لگتا ہے مَیں آیا…کوئی پیارا ہے مجھے آپ سے بھی…مَیں بابا سے یہ کہہ آیا…گھر بار ہے میرا بھی پیچھے…پر آگے بھی گھر میرا ہے…مَیں جی لوں گا اندھیروں میں…پر میرے بعد سویرا ہے…اس گھر کی ساری خوشیوں کو…اِک بار نہ گھبرا نے دیں گے…اِک سوچ بُری بھی سرحد سے…اس پار نہیں آنے دیں گے…کبھی پر چم میں لپٹے ہیں… کبھی ہم غازی ہوتے ہیں… جو ہوجاتی ہے ماں راضی… تو بیٹے راضی ہوتے ہیں…کیا ڈر ،کیا وہم، کیا خوف اُسے…جس پُشت پہ لاکھ دعائیں ہوں…ہو ،جن کے لہو میں بہتی وفا…پھر سامنے لاکھ بلائیں ہوں…جاتے جاتے بھی محفل سے…رُخ گلشن کا مہکاتے ہیں…ثابت قدموں پہ جو اپنے…وہ سچ ثابت ہوجاتے ہیں…آئے ہوں جدھر سے بھی دشمن…ہم تیز ہوا اُڑ جائیں گے…یہ ظلمت کےبادل سُن لیں…خالی واپس مُڑ جائیں گے…کبھی پرچم میں لپٹے ہیں… کبھی ہم غازی ہوتے ہیں…جو ہوجاتی ہے ماں راضی…تو بیٹے راضی ہوتے ہیں… واپس ماں کی آغوش میں ہیں… الحمد کہا اور رو دی ماں… ماں کے اِک شُکر کے آنسو سے…صدیوں تک غم نہ ہوں گے یہاں…دل جن کے بڑے ہوں ہستی سے…یہ بیٹے ہیںاُن ماؤں کے… خود دھوپ گزار کے چھوڑ گئے… یہ رستے سارے چھاؤں کے…اِک ذرّہ بھی اے پاک زمیں!… تیرا نہ اُٹھانے ہم دیں گے… یہ ظلمت کے بادل سُن لیں… خالی واپس مُڑ جائیں گے… کبھی پرچم میں لپٹے ہیں…کبھی ہم غازی ہوتے ہیں…جو ہوجاتی ہے ماں راضی…تو بیٹے راضی ہوتے ہیں۔

تازہ ترین