• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ کو دوبارہ زندگی ملے تو آپ کس ملک میں پیدا ہونا پسند کریں گے؟ دنیا میں کرائے گئے اس سروے کے نتائج بہت ہی دلچسپ ہیں۔ دنیا میں جس ملک کے بارے میں لوگوں نے رائے دی کہ وہ وہاں رہنا پسند کریں گے اس میں پہلا نمبر سوئٹزر لینڈ کا ہے، جھیلوں، وادیوں اور خوبصورت پھولوں کی سرزمین سوئٹزر لینڈ ،اس کا زیادہ تر حصہ جھیل جنیوکے کنارے آباد ہے جنیوا بھی اس جھیل کے کنارے ہے، جھیل کا صاف شفاف پانی جنیوا کے علاوہ لوزان، وی وے، گلاں جیسی خوبصورت بستیوں سے بھی گزرتا ہے، جھیل میں آلودگی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اندر فیکٹریوں کا بغیر ٹریٹمنٹ کیا ہوا پانی گرتا ہے ، اسی لئے اس کے کنارے پرندے نظر آتے ہیں اس کے اندر جاندار صحت مند مچھلیوں کا رہن سہن ہے، کناروں پر خوشبوؤں کے ڈیرے ہیں اور بستیاں آباد ہیں، ہر طرف زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔کیا ہم ایسی ہی بات لاہور کے قریب واقع دریائے راوی کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں صحت مند مچھلیوں کا ڈیرہ ہے؟ کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ راوی کے کنارے پرندے چہچہاتے ہیں؟ کیا اس کے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہے؟ کیا یہاں کنارے پر پھول کھلتے ہیں؟ کیا یہاں خوشبوؤں کے ڈیرے ہیں؟ کیا یہاں زندگی ہے ؟ افسوس صد افسوس کہ ایسی کوئی چیز ہمیں اب یہاں نہیں ملتی۔
پنجاب کے 5بڑے دریاؤں میں سے ایک راوی ہے اور شہر لاہور کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے لاہور کے قریب کے حصہ کو لاہور دریا بھی کہتے رہے ہیں، یہ دریا دو ملکوں انڈیا اور پاکستان کو آپس میں ملاتا ہے، اس دریا کا تاریخی نام ”اراوتی“ اور ”پروشنی“ ہے دس بڑے راجاؤں کی جنگ نے جو اس کے کنارے لڑی گئی نے اسے زمانہ قدیم میں بھی تاریخی مقام دے رکھا تھا۔ اس دریا نے راجاؤں کے علاوہ مغل بادشاہوں کو بھی اتنا متاثر کیا ہے کہ انہوں نے اس کی گزر گاہ کے قریب بے شمار باغ بنوائے، محبت کرنے والے دو مغل بادشاہ اور ان کی ملکہ یعنی جہانگیر اور نور جہاں کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنے مقبروں کے لئے اس کے کناروں کو چنا۔ یہ دریا اپنی زرخیزی کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہا ہے۔ ا س کے کنارے باغات، سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے لئے ہمیشہ سے بہترین ثابت ہوئے ہیں لیکن اب ہمارے حکمرانوں اور صنعتکاروں اور وڈیروں کے لالچ، طمع، ناعاقبت اندیشی نے اس دریا کے پانی کو زہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے کنارے پھل پھول اب بھی اگتے ہیں لیکن جتنا زہر اس دریا کے پانی میں موجود ہے اس سے پکے ہوئے پھل پھول کھانا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اس کے پانی سے سیراب ہونے والی فصلوں کا بھی یہی حال ہے۔ ہم نے نہ صرف یہ کہ اس دریا کو موت کا شکار بنایا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس کے پانی کو اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے زہر ناک کر دیا ہے۔ یہ موت صرف اس دریا کی موت نہیں ہے یہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک خطرناک پیغام ہے۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے بقول فیکٹریوں کے بغیر ٹریٹمنٹ کے اس کے اندر گرنے والا پانی اور گھروں کے سیوریج نے اس دریا کے پانی میں خطرناک کیمیائی مادے،میٹل اور کاپر کے ٹاکسک مادے شامل کر دیئے ہیں۔ ان مادوں میں Cu-Cdاور Pbجیسے مادے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فصلوں میں ڈالے جانے والے کیمیائی مادے بھی راوی کے پانی میں شامل ہو رہے ہیں یہ تمام زہر پھر واپس فصلوں میں اور زیر زمین موجود پانی کے اندر شامل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح سے 1500ٹن کے قریب کوڑا کرکٹ روز راوی کے اندر پھینکا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی حرکات کے بعد کیا ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ ہم اچھی اور صحت مند زندگی گزاریں۔ کیا ہم اپنے بچوں کے لئے ایک محفوظ صحت مند مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں میں ”آلوانڈے“ والے علی آفتا ب کا ایک خط بیان نقل کر رہا ہوں جو انہوں نے اس حوالے سے تحریر کیا ہے:۔
میں آپ کو دریاؤں کی اہمیت پہ نوٹ لکھ کر بور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ سے ہی سنتے آئے ہیں کہ کیسے آبادیاں دریاؤں کے گرد قائم ہوتی تھیں۔ India کو نام بھی Indus River کی وجہ سے ملا اور آج ہم جس شہر میں رہتے ہیں شہروں کا شہر کہلوایا، مرہون منت: دریائے راوی۔ ورنہ تو لاہور ایک دور میں ملتان شہر کا ایک قصبہ تھا۔ سندھ طاس معاہدہ ایک طرف اور دونوں ممالک کا گندگی کے نکات کا ناقص نظام بھی ایک طرف، میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہما چل پردیش سے لے کر چناب تک 894 کلومیٹر لمبے دریا میں سب سے زیادہ غلاظت 72 کلومیٹر کے اس حصے میں کیوں پائی جاتی ہے جو لاہور سے ہیڈ بلو کی کے درمیان ہے؟ کیا اس کی وجہ ایک کروڑ کا یہ شہر ہے جو اپنی تمام تر میونسپل گندگی کا اخراج راوی میں کرتے ہیں؟ یا 1400 ۔ 1200 وہ انڈسٹریل یونٹ ہیں جو بالکل کسی ٹریٹمنٹ کے بغیر اپنا سارا Waste راوی میں بہا دیتے ہیں؟ پینے کے صاف پانی کا نہ ملنا تو ایک مسئلہ ہے۔ یہی پانی ہیڈ بلو کی سے فصلوں کو پانی دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زیر استعمال تمام سبزیاں بھی دراصل زہر ہیں۔ UNICEF کی رپورٹ کے مطابق ہسپتالوں میں ایڈ مٹ 20-40 فیصد پاکستانی، گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ سستی روٹی اور بس کے سفر کی مد میں اربوں روپے کی سبسڈی دینے والی اس حکومت کو کیا یہ اندازہ نہیں ہے کہ اگر صاف پانی مہیا ہو تو ہسپتال بھی کم بنانے پڑیں گے اور دوائیوں کی مد میں سبسڈی پر بھی کم پیسہ خرچ ہوگا!۔ LHC میں اس سلسلے میں ایک پٹیشن بھی دائر ہے جس میں کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ Waste water Treatement کیلئے بابو صابو میں Pilot پراجیکٹ لگایا جائے جس کی لاگت صرف 45 ملین روپے ہے۔ کیا یہ بھی صرف ایک تجویز ہی رہ جائے گی یا اس پر کبھی عمل بھی ہوگا؟ مچھلیوں کی 42 اقسام ناپید ہو چکی ہیں اور indus river کی 48 فیصد گندگی کا ذمہ دار بھی دریا راوی ہے یعنی راوی کے آلودہ پانی سے صرف لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے ہی نہیں بلکہ لا تعداد دوسرے پاکستانی بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کیا معاشرے کے کسی حصے کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہے؟………(علی آفتاب سعید)
جس سروے کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا اس میں پاکستان کا نمبر 66ہے جو کافی نیچے ہے۔ یعنی جو لوگ پاکستان آکر رہنا چاہیں گے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس ناپسندیدگی کی وجوہات اور بھی بہت ہیں لیکن آلودگی اور فضا کی زہر ناکی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ درخواست خادم اعلیٰ سے یہی ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں شاید میٹرو بس منصوبے کو یاد نہ کریں لیکن وہ یہ نہیں بھولیں گی کہ خادم اعلیٰ نے 70ارب میٹرو بس میں جھونک دیئے لیکن راوی کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔
تازہ ترین