• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1926کے لگ بھگ لاہور میں ایک شعبدہ باز پیر ہوا کرتا تھا جس کا نام پیر کرم شاہ تھا۔ وہ ہزارہ کا رہنے والا تھا۔ خواجہ اجمیرؒ کے مزارِ پُرانوار پر کچھ عرصہ چلہ کشی بھی کی تھی۔ اُس زمانے میں کرنل لارنس (آف عریبیہ) کا ہندوستان میں بڑا چرچا تھا۔ عجب اتفاق کہ پیر کرم شاہ کی شکل کرنل لارنس سے بہت ملتی تھی۔ کرم شاہ نے پیری مریدی کا کاروبار خوب چلا رکھا تھا۔ اس کے حسن کی کشش کے باعث بہت سی عورتیں بھی اس کی گرویدہ ہونے لگیں اور اس کی آمدنی خوب بڑھ گئی۔

لاہور کے پرانے ہندو رئوسا میں ایک صاحب، رائے بہادر میلا رام تھے، جو پنجاب کے بہت بڑے ٹھیکیدار تھے۔ لاہور میں ان کی کئی کوٹھیاں تھیں۔ وہ حضرت داتا گنج بخش صاحب ہجویری کے مزار کے قریب ’’لال کوٹھی‘‘ میں رہا کرتے تھے اور ٹھیکیداری میں لاکھوں روپے کماتے تھے۔ انہوں نے 1890کے لگ بھگ ایک کنواں مع زمین متعلقہ پانچ ہزار روپے میں خرید کی۔ یہ زمین ملکہ کے بت سے لے کر گورنمنٹ ہائوس تک چلی گئی تھی۔ رائے صاحب نے اس زمین کے ایک حصے پر تو چیئرنگ کراس کی شاندار عمارت بنائی اور دوسرے حصے پر ایک ہوٹل تعمیر کرایا جس کا نام ’’نیڈو ہوٹل‘‘ رکھا گیا۔

ایک انگریز مسٹر نیڈو نے اس ہوٹل کو ایک لمبی میعاد پر کرایہ پر لے لیا تھا۔ آج کل اس جگہ پر آواری ہوٹل موجود ہے۔ یہ مسٹر نیڈو پرانے وقتوں کے نیک دل انگریزوں میں سے تھے۔ ان کے تین بیٹے تھے جو نہایت وجیہ اور شکیل تھے۔ ان میں سے ایک بیٹے کا نام ہیری نیڈو تھا۔ یہ ہیری گرمیوں میں گلبرگ میں رہا کرتا اور سردیوں میں لاہور والے ہوٹل کا کام سنبھالتا تھا۔ وہ بڑا خوش شکل اور منکسر المزاج انسان تھا۔ ؎یہ ہیری ایک کشمیری دوشیزہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا اور والدین کی مخالفت کے باوجود اس سے شادی کرلی۔ ہیری نیڈو نہ صرف مسلمان ہو گیا بلکہ چھوٹی سی داڑھی بھی رکھ لی۔ ہیری نیڈو کے ہاں، اس کشمیری بیوی کے بطن سے ایک دختر پیدا ہوئی جو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھی۔ اس کی تعلیم سرینگر کے کانونٹ اسکول میں ہوتی رہی۔ پڑھ لکھ کر وہ لڑکی بڑی روشن خیال اور شائستہ بن گئی تھی۔

ادھر کرم شاہ کے پاس دولت کی فراوانی تو تھی ہی اور کشمیر میں بھی اپنی پیری مریدی کا اس نے جال خوب پھیلایا۔ کرم شاہ کی ظاہری سج دھج اور حسن خداداد نے کشمیر میں خوب اثر پیدا کیا اور وہاں کے لوگ دھڑا دھڑ اس کے مرید ہونے لگے۔ اتفاق سے ہیری کی ملاقات ایک محفل میں کرم شاہ سے ہو گئی۔ دو چار ملاقاتوں کے بعد وہ کرم شاہ کا گرویدہ ہو گیا اور اس کو مردِ کامل سمجھنے لگا۔ ہیری نے یہ ارادہ کر لیا کہ اپنی بیٹی کا رشتہ کرم شاہ سے کر دے گا۔ اس شادی کی وجہ سے کرم شاہ کی شہرت کو چار چاند لگ گئے بلکہ اس شادی کو اس کی ایک کرامت سمجھا جانے لگا۔

شادی کے بعد کچھ عرصہ تک تو اس کی حالت درست رہی۔ اس نے اپنی بیوی کی خاطر و مدارت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ صحت و جوانی کو قائم رکھنے کے لئے ایک حکیم صاحب ’’زدجامِ عشق‘‘ کی گولیاں بڑے اہتمام سے تیار کرتے رہتے تھے اور ان گولیوں کے اجزاء دہلی اور لکھنؤ سے لایا کرتے۔ کرم شاہ آہستہ آہستہ بے باک ہونے لگا تھا۔ پہلے تو اپنے گھر میں خرافات سے باز رہتا تھا لیکن اب وہ گھر پر بھی عورتوں سے میل ملاپ رکھنے لگا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم سے تعلقات کشیدہ ہونے لگے۔ بڑھتے بڑھتے حالت یہ ہو گئی کہ بیگم سے تلخ کلامی کے علاوہ دھول دھپا بھی شروع ہو گیا۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ ہمارے دوست میاں علیم الدین دیر سے سیکرٹریٹ پہنچے۔ سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جب وہ دفتر آنے لگے تھے تو کرم شاہ کی بیگم ایک کھڑکی میں کھڑی زار زار رو رہی تھی اور ہاتھ باندھ کر التجا کرنے لگی کہ کسی نہ کسی طرح اُسے اس کمرے سے نکالا جائے۔

شام کو ہم چار دوست کرم شاہ کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نشے میں دھت قالین پر لیٹا ہوا تھا۔ ہمارے ہمراہ ایک سپاہی کو دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سا گیا اور پوچھا کہ یہ شخص کیسے آیا ہے۔ میں نے اُسے بتایا کہ تم نے جو اپنی بیوی کو ایک کمرے میں بند کر رکھا ہے اور مارا ہے تو اس کی اطلاع پولیس والوں کو ہو گئی ہے اور وہ تمہاری گرفتاری کے لئے آ رہے ہیں۔ معاً ہمارے ساتھی آغا صاحب نے اسے ایک ایسا سخت گھونسا رسید کیا کہ اس کا سر چکرا گیا اور وہ قالین پر لیٹ گیا۔ دوسرے ساتھی علیم الدین نے ایک چھرا نکال لیا اور تیسرے دوست منوہر لعل نے ایک ٹامی پستول نکال کر اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے ذرا بھی آواز نکالی تو فوراً ہلاک کر دیا جائے گا۔

اب کرم شاہ کا نشہ بالکل ہرن ہو گیا اور ہاتھ باندھ کر پوچھا کہ آخر آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ اس پر آغا نے کہا کہ ’’پہلے اپنی بیوی کو کوٹھڑی سے نکال کر باہر لا‘‘۔ اس پر اس نے اپنی جیب سے چابی نکال کر تالا کھولا اور بیوی کو باہر لے آیا۔ دو دن کے فاقے سے اس نیک خاتون کا برا حال ہو رہا تھا۔ آخر ہم نے اسے کچھ شربت پلایا اور اس کے ہوش بحال ہوئے۔ پھر اس خاتون نے اس جعلساز کی ایسی ایسی باتیں سنائیں کہ سب کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آخر میں اس نے منت کی کہ اسے طلاق دلائی جائے۔

کرم شاہ کو اب یہ یقین ہو چلا تھا کہ اسے واقعی جان سے مار دیا جائے گا سو وہ زار زار رونے لگا اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ خدا کے لئے اس کی جان بخشی کی جائے۔ چنانچہ ہم نے اسے آخری بار سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً طلاق دیدے۔ اس پر وہ کانپنے لگا اور چند منٹ سوچنے کے بعد اُس نے طلاق دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ پھر اس نے تین بار کلمہ پڑھ کر طلاق کا اعلان کر دیا۔ اس پر وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گیا، وہاں سے بیوی کے زیورات کی صندوقچی اٹھا لایا اور اسے اپنی بیوی کے حوالے کر دیا۔ تین چار ہزار روپے نقد بھی دیئے۔ وہ خاتون دوسرے دن کشمیر روانہ ہو گئی۔ اس طرح یہ معاملہ بخوبی طے پا گیا۔ ہم نے خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔

قارئین یہ خاتون وہی ہے جو کہ بعد میں سابق وزیراعظم شیخ عبداللہ مرحوم کی زوجہ بنی۔ وہ آزادیٔ کشمیر کے سلسلے میں جو جلوس سرینگر سے نکالا کرتے تھے، ان کی قیادت یہ خاتون کیا کرتی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں شیخ صاحب کی رفیقہ حیات ثابت ہوئی۔

(سبزہ بیگانہ از شیخ عبدالشکور مرحوم سے ماخوذ)

تازہ ترین