• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حکومتیں بنانے اور الٹانے، معاشرے کی بمطابق تشکیل حتیٰ کہ اس (معاشرہ) کی ڈی شیپنگ جیسی طاقت کے حامل روایتی مین اسٹریم میڈیا کی بڑی اور ثابت شدہ طاقت کے مقابل، سوشل میڈیا بہت تیزی سے اپنی اس صلاحیت کو ثابت کر رہا ہے کہ اپنے مخصوص پیشہ ورانہ تشخص کے باعث، عوامی دلچسپی کا حامل جو بہت کچھ روایتی میڈیا رپورٹ نہیں کر سکتا، وہ (سوشل) میڈیا بڑی آزادی اور بلند درجے پر تکرار کے ساتھ رپورٹ کر سکتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کے مقابل رائے عامہ کو زیادہ اور جلد نتیجہ خیز بنانے میں بھی اس کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔

نئی دہلی کا شمار دنیا کے چوٹی کے مصروف ترین نیوز اسٹیشنز میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں گلوبل میڈیا کے نمائندے اور بیورو موجود ہیں۔ Troops Lockedاور دنیا سے کاٹے گئے کشمیر کا اَن رپورٹڈ ہونا تو ایک طرف کہ نئی دہلی بیسڈ عالمی میڈیا پر ایک بڑا سوال (اور نوٹس) تو یہی ہے کہ بھارتی حکومتی پابندیوں کے باعث یہ اتنا بے بس یا اَن پروفیشنل ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی بنیاد پرست فاشسٹ حکومت کی کشمیر کو اَن رپورٹڈ رکھنے کی پابندیوں کے سامنے اتنا ہی بے بس ہو گیا ہے کہ موجودہ عالمی منظر پر جاری سب سے بڑے انسانی مسئلے کے دسیوں شدت سے رپورٹ ایبل پہلوئوں کی رپورٹنگ کے قابل نہیں رہا؟ یا یہ اس کا اپنی حکومتوں کی طرح پیشۂ صحافت سے ہٹ کر کوئی اور مفاد ہے کہ حالات کی تمام تر نزاکت اور حساسیت کے باوجود وہ مسئلہ کشمیر میں انسانی بحران کی سنگین کیفیت کو رپورٹ کرنے سے دانستہ چشم پوشی برت رہا ہے؟ یہ سرمائے کے زور پر بنی مودی کی فاشسٹ حکومت کی اخلاقی ضابطے کی دھجیاں اڑانے والی پی آر شپ تو نہیں؟ وگرنہ گمبھیر کشمیر کی موجودہ پُرخطر صورت کو اَن رپورٹڈ بنائے رکھنے والی ’’حکومتی پابندیاں اور رویے‘‘ کی تفصیلات سے اور صحافتی پیشے کے تقاضوں کے بعد تسلسل کی تفصیلات کی مسلسل رپورٹننگ پیشۂ صحافت کے پروفیشنلزم اور ضابطہ اخلاق، ہر دو کا بنیادی تقاضا ہے۔ جس سے دہلی بیسڈ عالمی میڈیا کی مسلسل کوتاہی یا بے حسی عالمی صحافت کا بھارتی کیپیٹل میں ڈیزاسٹر ہے۔ کہاں ہیں عالمی صحافتی تنظیمیں جو رپورٹ ایبل کو اَن رپورٹڈ رکھنے کے حکومتی اقدامات کو بے نقاب کرنے اور رپورٹنگ کو ممکن بنانے کی علمبردار ہیں؟ یہ آزادیٔ صحافت کے لئے عالمی درجے کا چیلنج نہیں؟ اگر عالمی میڈیا کا گمبھیر کشمیر، جس نے دو ایٹمی صلاحیت کے ممالک میں جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے، اَن رپورٹڈ رکھ کر فاشسٹ مودی حکومت سے غیر علانیہ تعاون جاری رہا تو یہ بین الاقوامی و عالمی ذرائع ابلاغ عامہ کے اعتماد کی متاع کو برباد کرکے رکھ دے گا جو عالمی امن کے حوالے سے بھی انتہائی تشویشناک ہے۔

حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ آج کمیونیکشن کی جادو بھری ٹیکنالوجی نے روایتی میڈیا کی حکومتیں بنانے اور الٹنے، پھر معاشرے کی مرضی کی (ایجنڈا کے مطابق) تشکیل یا Deshapingشیئر کر دی ہے۔ یہ طاقت اب نئی دہلی بیسڈ عالمی میڈیا کے موجود رویے کے حامل مین اسٹریم میڈیا کی نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا اس کا بڑا حصہ لے اڑا ہے اور اس نے اسے اور زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ شمالی افریقی ممالک میں عرب اسپرنگ کی غیر متوقع آمد، صدر ٹرمپ خصوصاً سیکولر جمہوریہ کی قومی سیاست میں ہندو بنیاد پرستی کا غلبہ اسی کی صلاحیت کے ’’اسمارٹ استعمال‘‘ سے ہوا۔

سوال یہ ہے کہ بحیثیت قوم پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ نئی دہلی بیسڈ انٹرنیشنل میڈیا کے اینٹی پروفیشنل کردار، بے بسی یا مجرمانہ بے بسی کو مکمل ڈیٹا اور مطلوب حقائق کے ساتھ بے نقاب کر سکتا ہو؟ حکومت تو نہیں رکھتی۔ ہمارا قومی میڈیا 95فیصد سے بھی زیادہ قومی زبان میں ہے۔ اس کے لئے تو میڈیا اسکالرز، اعلیٰ معیار کے Media Criticsاور قومی میڈیا کی سطح کے ایجنڈا سیٹر اور عربی، فرنچ، روسی، چینی، فارسی، ترکی، ہسپانوی، سہالی اور دوسری بڑی بڑی غیر ملکی صحافتی زبان پر دسترس رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ گویا پاکستان کی سلامتی و دفاع اور مسئلہ کشمیر کو مطلوب پیشہ ورانہ اور سائنٹفک کمیونیکشن اسپورٹ ہمارا اپنا قومی میڈیا تو فراہم نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے ٹیکنیکل بیئرر موجود ہیں۔ ہاں! کر سکتا ہے تو سوشل میڈیا، بشرطیکہ پاکستان کی سول سوسائٹی، حکومت اور دیگر ادارے، سب مل کر اس ضرورت کو ہنگامی بنیاد پر جلد اور ممکنہ حد تک بھرپور انداز میں پورا کریں لیکن سوشل میڈیا کے پاکستان کو حامل دستیاب لیکن بکھرے پوٹینشل کو فوری منظم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کی جو شکل بنتی جارہی ہے اس کا سب سے بڑا ہتھیار تو سوشل میڈیا ہے۔ ائیر فورس، پاکستان کی کمال اہلیت کی حامل آرمی، بحریہ اور انٹیلی جنس سروس کی طرح ہم یہ پوٹینشل بہت جلد تیار کر سکتے ہیں۔ انڈیا کے بیمار مین اسٹریم اور سوشل، دونوں میڈیا کی بے شمار کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا وقت کا فوری تقاضا ہے، یہ بھارت کا مین اسٹریم اور سوشل میڈیا ہی تو ہے جس نے مملکت میں جمہوری عمل کے تسلسل اور اس کے سیکولر جمہوری تشخص کو برباد کرکے بھارت کو ایک فاشسٹ اور بنیاد پرست خطرناک مملکت میں تبدیل کر دیا ہے۔

تازہ ترین