• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی ایک بھی سرکردہ سیاستدان نہیں جس نے یہ نہ کہا ہو کہ آئندہ انتخابات کو ملتوی کرانے کے لئے سازشیں ہو رہی ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، نون لیگ کے سربراہ نوازشریف اور بہت سے دوسرے رہنماؤں نے اپنے اپنے انداز میں یہی راگ الاپا ہے مگر کسی نے بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ سازشی عناصر کا نام لیں تاکہ ان کی سرکوبی کی جائے۔ اس طرح کی باتیں ہر الیکشن سے قبل ہوتی ہیں جس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں۔ کوئی اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کے لئے سازش کا اظہار کر کے اس کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے اور کوئی انجانے خوف سے ایسا کرتا ہے مگر ان وجوہات کے علاوہ ایسی کھچڑی کہیں نہ کہیں ضرور پک رہی ہوتی ہے کہ غیر یقینی پیدا کی جائے جس میں ایک مخصوص سیاسی جماعت جس کے بارے میں عام رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر لے گی کو کسی حد تک نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اس بار نون لیگ ٹارگٹ ہے اور یہ سارا ڈرامہ جو سازش کے نام پر رچایا جارہاہے بظاہر صرف اور صرف اس کی کچھ سیٹیں کم کرنے کے لئے ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے اچانک آمد ، لانگ مارچ، دھرنا اور انتخابی اصلاحات پر زور تاکہ بہت سے امیدوار انتخابی میدان سے باہر ہو جائیں سب کچھ کا ہدف صرف نوازشریف ہیں۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ سازش سازش کا راگ الاپنے کے باوجود آئندہ انتخابات وقت پر ہی ہو جائیں گے۔ آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں جن کے دوران انتخابی عمل میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی جا سکتی ہیں مگر سب منصوبے ناکام ہو جائیں گے اور قوم جمہوریت کا مارچ جاری رکھے گی۔
اس سارے کھیل میں پیپلزپارٹی جس نے 5سال اقتدار کے مزے خوب لوٹے ہیں کا کردار بڑا اہم ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ نون لیگ کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں۔ اگر یہ دو بڑی سیاسی قوتیں انتخابات سے قبل کے مختلف مراحل جن میں نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی سب سے اہم ہے مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے طے کر لیں تو الیکشن کے التوا کے لئے کی جانے والی سب سازشیں ناکام ہو جائیں گی تاہم اس وقت دونوں اطراف سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہو رہاہے۔ ہمارے ملک میں غیر جمہوری قوتوں کا سیاسی معاملات میں عمل دخل بڑھ جاتا ہے جب سیاسی قوتیں اہم ملکی معاملات پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکیں۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو چاہئے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور جلد ازجلد نگران سیٹ اپ پر ٹھوس بات چیت کا آغاز کریں کہ آئندہ چند دنوں میں اس پر حتمی فیصلہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد دیکھیں کہ غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے والے عناصر مایوس ہو جائیں گے اور عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے۔ اگرچہ ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیاری کر رہی ہے مگر نہ ہی وہ خود اور نہ ہی ان کا کوئی فیملی ممبر انتخابی میدان میں اترے گا لہٰذا اس طرح پارلیمانی سیاست میں ان کا ذاتی اسٹیک برائے نام ہو گا۔ اس طرح کی صورتحال میں وہ”ریفارمز“ کاکردار ہی ادا کرتے رہیں گے اس وقت تک جب تک وہ واپس کینیڈا نہیں چلے جاتے۔ ان کی واپسی زیادہ دور نہیں کیونکہ انتخابات میں جو حشر ان کی عوامی تحریک کا ہونا ہے وہ ابھی بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پورے ملک سے ہزاروں حمایتیوں کو اسلام آباد جمع کر لینا ایک بات ہے جبکہ قومی و صوبائی اسمبلی کی کوئی ایک بھی سیٹ جیتنا بالکل دوسری بات ہے۔ پورے ملک میں کوئی ایک بھی حلقہ ایسا نہیں جس کے بارے میں عوامی تحریک یہ کہہ سکے یہ اس کے لئے بالکل سیف ہے جہاں سے یہ آسانی سے جیت جائیں گی۔
اس سازشی ماحول میں کچھ عناصر الیکشن کمیشن پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں تاکہ یہ ادارہ ان کی خواہشات کے مطابق چلے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن صحیح معنوں میں غیر جانبدار اور آزاد ہوا ہے جس کا سہرا ان تمام سیاسی جماعتوں کے سر ہے جن کی موجودہ پارلیمان میں نمائندگی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قابل ستائش پیپلزپارٹی اور نون لیگ ہیں۔ یہ بات بہت سے عناصر کو ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ ایک ایسا الیکشن کمیشن بنایا ہے جو ان کی مرضی کے مطابق انتخابات کے نتائج دیتا رہا ہے، ڈاکٹر قادری کا سب سے بڑا ہدف یہی ادارہ ہے۔ جب انہوں نے اس پر حملوں کا آغاز کیا تھا تو وہ نہ صرف الیکشن کمیشن کے چار ممبران بلکہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) فخر الدین جی ابراہیم کی بھی چھٹی چاہتے تھے مگر بعد میں انہوں نے حسب معمول اپنا موقف بدلا اور سی ای سی کو معاف کر دیا مگر چاروں ممبران کی وہ اب بھی چھٹی کرانا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرنے کو تیار ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے بھی اب پینترا بدلا ہے اور وہ بھی چاروں ممبران کو فارغ کرانا چاہتے ہیں جبکہ انہوں نے فخرو بھائی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان کو اب کیوں خیال آگیا کہ چاروں ممبران بھی ان عہدوں کے لئے نامناسب ہیں۔
ان ممبران اور سی ای سی کا تقرر آئین کے مطابق ہوا ہے اور ان کی مدت ملازمت کو بھی مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ان کو ہٹانے کا وہی طریقہ ہے جو آئین میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ہے لہٰذا نہ ہی حکومت اور نہ ہی کوئی اور ان کو کان سے پکڑ کر یکدم گھر بھجوا سکتا ہے۔ کئی سالوں سے موجودہ حکومت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور بہت سے دوسرے ججوں سے جان چھڑانا چاہتی ہے مگر وہ ایسا نہیں کر سکی کیونکہ ان کو صرف اور صرف آئین کے آرٹیکل209کے تحت ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ یہی حالت الیکشن کمیشن کے ممبران اور سی ای سی کی ہے چاہے ڈاکٹر قادری اور عمران خان مل کر یا علیحدہ علیحدہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔جب ان میں سے کوئی اعلیٰ عدلیہ میں یہ سوال اٹھائے گا تو اسے مناسب جواب مل جائے گا۔ نہ صرف سی ای سی بلکہ چاروں ممبران کا تقرر آئین میں دیئے گئے طریقے کے مطابق ہوا ہے یعنی وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے،لہٰذا اگر ان میں سے کوئی مستعفی ہو جاتا ہے یا خرابیٴ صحت کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اپنے فرائض انجام دے سکے تو اس کی جگہ نئے ممبر کا تقرر بھی اسی طریقے کے مطابق ہو گا جس میں یقینا ڈاکٹر قادری یا عمران خان کاکوئی رول نہیں ہو گا۔ نون لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کا پارلیمینٹ بلڈنگ سے الیکشن کمیشن کے دفاتر تک مختصر لانگ مارچ کا بنیادی مقصد اس قومی ادارے کے ساتھ اس وقت اظہار یکجہتی کرنا تھا جب وہ سخت حملوں کی زد میں ہے، یہ اس کے خلاف مہم کا جواب تھا۔
تازہ ترین