• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم

تین سالہ بھولی بھالی معصوم سی مریم بڑا سا دوپٹا کندھے پہ سنبھالے ممّا کاپرس تھامے پورے گھر میں ننّھے ننّھے پیروں سے اِدھر اُدھر بھاگتی پھر رہی تھی۔دوپٹا سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا، مگر وہ اسے مضبوطی سے پکڑے تھی کہ کہیں گر نہ جائے۔ گھر والے بھی اپنی گڑیا کی اس ادا پر نہال ہورہے تھے۔ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بڑوں کو دیکھ کر ان جیسا بننا بچّوں کی عادت ہوتی ہے۔خاص طور پر بچّیاں تو چھوٹی سی عُمر ہی میں کھیلتے ہوئے دوپٹا لے لیتی ہیں۔ کھیل کھلونوں کی دُنیا میں جب بھی کوئی نیا کھیل شروع ہوا، تو جھٹ الماری سے ممّا کا خوش رنگ دوپٹّا الماری کے کپڑے گراتا ہوا باہر نکلا اور ننّھی پری اسے لپیٹ کر کھیل میں مصروف ہوگئی۔ یہ اس لیے کہ حجاب انسانی فطرت کا اہم حصّہ اور شرم و حیا کا احساس ہے۔ اپنے سراپے کو چُھپانا انسان کی جبّلت میں شامل ہے۔حضرت آدم ؑاور بی بی حوّا ؑنے جنّت میں شجرممنوعہ چکھا تو ستر چُھپانے کا احساس شدّت سے ہوا۔تب ہی حضرت آدم ؑاور بی بی حوّا ؑ ؑنے جنّت کے پتّوں سے اپنے وجود کو چُھپالیا اور یوں فطری حیا نے آدم ؑ و حوّا ؑکو حجاب کے تصوّر کی عملی شکل سکھائی۔اللہ تعالی نے لباس کو اپنی نشانی کہا ہے۔ لباس کا مقصد زینت بھی ہے، تو جسم چُھپانا، ڈھانپنا اور موسم کے سرد و گرم سے حفاظت بھی ۔بہترین لباس وہ ہے، جو ان تمام مقاصد کو پورا کرے۔خواتین کے لباس کا ایک لازمی جزو چادر اور دوپٹّا ہے، جو انہیں نہ صرف پُروقار بناتا ہے،سب سے بڑھ کر مسلمہ ہونے کی شناخت بخشتاہے۔اصل میں حجاب، چادر کی ان مختلف شکلوں کا نام ہے، جو اسلام، مسلمان عورت کے گھر سے باہر جانے کی صُورت میں فرض قرار دیتا ہے۔ قرآن پاک میں سورۃالاحزاب کی آیت نمبر59 میں ہے،’’اے محمّد صلی اللہ علیہ وسلم!اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ جب وہ گھر سے نکلیں تو اپنے اوپر چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں‘‘بے شک حجاب اُس نظر نہ آنے والی مہین دیوار کا نام ہے، جو انسانی تہذیب کی صُورت گَری کرتی ہے اور انسانی معاشرت کو شر سے بچانے میں مددفراہم کرتی ہے۔یہ بجا ہے کہ ماحول اور معاشرہ سازگار ہوں، تو ہی فطرتِ انسانی اپنے کمال کو پہنچتی ہے اور یہ کمال اُسےبے مثال حُسن عطا کرتا ہے، شخصیت کوبا وقار بناتا ہے اور اس کے ظاہر و باطن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

بچّیاں ننّھی پریوں کی صُورت معصوم اور نوخیز کلیوں کی طرح پاکیزہ و کومل ہوتی ہیں۔ اس پاکیزگی کو ان کے وجود کا حصّہ بنانے میں ساتر لباس اور حجاب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان کلیوں سی معصوم بچّیوں کو حیا اور حجاب کا شعور دینا اور اسے ان کی ذات کا خُوب صُورت حصّہ بنانا ماؤں کی ایک اہم ذمّے داری ہے،لہٰذا بچپن ہی سے اپنی بچّیوں کو سمجھائیں کہ جیسے تازہ کھلا ہوا پھول گرم ہوا سے جھلس جاتا ہے، شفّاف شیشے پر جمی گرد اسے میلا کردیتی ہے، ایسے ہی مسلم عورت کا بے حجاب ہونا اُس کے حُسن کو گہنا دیتا ہے۔ جس طرح کوئی قیمتی موتی چُھپا کر رکھا جاتا ہےکہ وہ محفوظ رہے، بالکل ایسے ہی حجاب عورت کو لوگوں کی بُری، میلی نظروں سے محفوظ رکھتا ہے، لہذا اپنی پیاری بچّیوں کو نو عُمری کی نزاکتیں بتائیں ، وقت کی بدلتی قدروں کے مقابلے میں اپنی اقدار پر عمل کرنے کا اعتماد دیں اور حیا و حجاب کے ساتھ زندگی کی بُلندیوں پر چڑھنا سکھائیں۔ایک سمجھ دار ماں کا کہنا ہے،’’جب سے میری بچّی لڑکپن کے دَور میں داخل ہوئی ہے، مَیں نے خود حجاب سے متعلق اپنے روّیے بہتر کرلیے ہیں۔‘‘ اپنی ننّھی پریوں کو نہ صرف لباس سے ہم آہنگ خُوب صُورت دوپٹے، اسکارف لےکر دیں، ساتھ ہی اُن کے استعمال کا سلیقہ بھی سکھائیں۔ گھر آنگن میں کھیلتی کودتی اپنے لاڈلیوں کوبچپن ہی سے پوری آستین کا لباس پہنائیں،خصوصاً تقریبات کے لیے خاص تاکید کریں وہ لباس اور حجاب کا بہت خیال رکھیں۔ بلاشبہ حجاب انسانی فطرت کا حصّہ ہے اور فطرت اپنے اصل پر قائم رہے، تو نکھرتی ہے، ورنہ بکھر جاتی ہے۔

تازہ ترین