• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قذافی اسٹیڈیم کے ہیڈ کیو ریٹر نے پی سی بی کو خیرباد کہہ دیا

کرکٹ گراونڈ میں اچھی کارکردگی پر کھلاڑیوں کو داد ملتی ہے اور ایک اچھی کارکردگی کھلاڑی کو عالمی شہرت یافتہ بنا دیتی ہے لیکن کھلاڑی کو ہیرو بنانے میں ایک خاموش ہیرو کا کردار اہم ہوتا ہے جو میچوں کے لئے پچ اور آوٹ فیلڈ بناتے ہیں۔

گرمی ہو، برفانی ٹھنڈ یا طوفانی بارش گراونڈ اسٹاف موسم کے نامساعد حالات کی پرواہ کئے بغیر محنت جاری رکھتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ کے ہیڈ کوارٹر قذافی اسٹیڈیم کا ہیڈ کیو ریٹر خان محمد 33سالہ ملازمت کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو خیر باد کہہ گئے۔

1986میں چونیاں کے ایک گاؤں میں زمینداری کرنے والے28 سالہ نوجوان، خان محمد نے قذافی اسٹیڈیم میں پہلی بارقدم رکھا، اس دوران انہوں نے 1996کے ورلڈ کپ فائنل سمیت درجنوں انٹر نیشنل میچوں کے لئے پچ تیار کی۔61

سالہ خان محمد 1987ء اور 1996 کے ورلڈکپ کے لیے پچز بناچکے ہیں، خان محمد کہتے ہیں کہ کرکٹ سے لگن توبہت تھی مگر کرکٹ میچ کا احوال صرف ریڈیو پاکستان پر سنتا تھا، امید تھی کہ وہ ان قومی ہیروز کو قریب سے دیکھ سکے گا، خان محمد کو قذافی اسٹیڈیم میں پچ اور گراؤنڈ کی تیاری کی ذمہ داری مل گئی تھی۔

خان محمد کا کہنا ہے کہ جب قذافی اسٹیڈیم میں بطور گراؤنڈ اسٹاف ممبر بھرتی ہوا تو یہاں پچ تیار کرنے کے لیے صرف 2 ملازم تھے مگر آج جدید دور میں یہاں 20 افراد کام کررہے ہیں۔

خان محمد کہتے ہیں کہ ہم 16 پچز پر مشتمل اپنے اسکوائر کو غروب آفتاب سے قبل ڈھانپ دیتے ہیں، اس دوران ہم 3 سے4 لوگ رات بھر یہاں ہی رہتے ہیں تاکہ موسم کی بدلتی رت کی صورت میں ہمہ وقت تیار رہیں۔

خان محمد نے بتایا کہ ایک رات شدید طوفان کے باعث پچ پر پڑا منوں وزنی کور، ہوا کے ساتھ اڑ کر گراؤنڈ کے باہر چلا گیا تھا، جس کے باعث اگلے روز پی آئی اے اور حبیب بنک کے درمیان جاری ڈومیسٹک میچ تاخیر سے شروع کرنا پڑا۔

پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان پلے آف میچ سےقبل بارش اس قدر تیز ہو رہی تھی کہ براڈ کاسٹرز نے میچ کے انعقاد کو ناممکن قرار دے دیا تھا مگر چیف کیوریٹر آغا زاہد نے بورڈ کے اعلیٰ حکام سے درخواست کی، ہماری تجویز پر 2 ہیلی کاپٹرز گراؤنڈ سے پانی سکھانے کے لیے لائے گئے۔

جس کے بعد گراؤنڈ اسٹاف میں شامل تمام اراکین نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا، اس اہم میچ کے کامیاب انعقاد اور ان کے بہترین کیرئیر کے پیش نظر پاکستان کرکٹ بورڈ نے خان محمد کے کنٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کردی تھی۔

1996 ورلڈکپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے خان محمد کا کہنا تھا کہ ایونٹ کے فائنل میچ کے دوران بارش کی پیشگوئی تھی، جوں جوں میچ اختتام کو پہنچ رہا تھا ہماری نظریں آسمان پر پھیلے کالے بادلوں پر جمنے لگی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کورز ہاتھ تھامے باؤنڈری لائن پر کھڑے صرف یہ دعا کر رہے تھے کہ میچ مکمل ہوجائے اور شاید ہماری دعا قبول ہوگئی تھی، جیسے ہی سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کپتان رانا ٹنگا نے فاتحانہ رنز بنائے تو ساتھ ہی تیز بارش شروع ہوگئی،اب گراؤنڈ اسٹاف پچ کو کور کرچکا تھا اور کھلاڑی ڈریسنگ روم میں پہنچ گئے تھے۔

خان محمد نے کہا کہ گراؤنڈ اسٹاف میدان میں اترنے والی دونوں ٹیموں کے لیے یکساں پچ کی تیاری کرتا ہے، جہاں ایک ہی میچ میں کوئی کھلاڑی سنچری اسکور کرتا ہے تو کوئی صفر پر آؤٹ ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انضمام الحق کی نیوزی لینڈ کے خلاف قذافی اسٹیڈیم میں 329 رنز کی اننگز میں کبھی نہیں بھول سکتا جبکہ اسی میچ میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم ایک اننگز میں محض 73 رنز پر بھی آؤٹ ہوگئی تھی۔

اسی طرح لیگ اسپنر عبدالقادر کی 1987ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک اننگز میں نو وکٹیں بھی خان محمد کی حسین یادوں میں سےایک ہے، اس اننگز میں عبدالقادر نے 6 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا تھا۔

قذافی اسٹیڈیم میں 33 سال سے اپنے کام میں مگن رہنے والےخان محمد اپنی کئی خاندانی ذمہ داریوں کو کام کی وجہ سے ادھورا چھوڑ چکے ہیں، وہ اپنے چچا سمیت چند قریبی رشتہ داروں کے جنازوں میں شرکت نہیں کرسکے، کیونکہ وہ اس دوران قذافی اسٹیڈیم میں گراؤنڈ کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف تھے۔

کرکٹ سیزن کے شروع ہوتےہی خان محمد صبح صادق کے وقت قذافی اسٹیڈیم پہنچ جاتے تھے لیکن اب دنیا کا مشہور ٹیسٹ سینٹر اس خاموش ہیرو کو مدتوں بھلا نہیں سکے گا۔

تازہ ترین