• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2ماہ قبل پی آئی اے کی پرواز سے لندن روانہ ہوا ۔جہاز میں مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ اور سرجن فیض محمد سے ملاقات ہو گئی ۔ ان دونوں ڈاکٹروں سے 40سال سے دوستانہ مراسم تھے خصوصاً ڈاکٹر فیض محمد نے تو 1976ء میں میری فیکٹر ی میں شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ کے متاثرین کا علاج کیا تھا ۔ جس سے دوستی کی ابتداء ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کا کرکٹر سے تعلق کسی سے پوشید ہ نہیں ہے اور میرا تعلق بھی کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر کی حیثیت سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں ۔ گذشتہ 12سال سے ہمارا ادارہ کراچی میں انڈر 15، انڈر 17، انڈر 19اور انڈر 21ٹورنامنٹ منعقد کرا رہا ہے ۔ جس میں کراچی اور مضافات کے تمام زونز اس میں حصہ لیتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹر محمد علی شاہ ان ٹورنامنٹ کے اختتام پر مہمان ِ خصوصی ہوتے تھے اور جب سے کھیلوں کی وزارت ان کو ملی تو انہوں نے کراچی کے نوجوانوں کیلئے بے انتہا مواقع فراہم کیے ۔ خود انہوں نے اپنے والد کے نام سے اصغر علی شاہ اسٹیڈیم بنا کر کراچی میں کرکٹ اکیڈمی کی داغ بیل ڈالی ۔ راقم کے ملیر میں KNاکیڈمی کرکٹ کلب کا بھی افتتاح انہی کے ہاتھوں 2001ء میں ہوا تھا ۔ بعد میں اس اکیڈمی میں سندھ نابیناؤں (Blind)کی کرکٹ ٹیم کے میچ بھی ہوتے رہے اس کے بھی وہ مہمان خصوصی ہوتے تھے ۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے 1987ء سے 2005ء تک نائب صدر بھی رہے ۔ پھر 2006ء سے 2011ء تک صدر منتخب ہوئے ۔ 2008ء کے انتخابات میں وہ کراچی سے صوبائی الیکشن کے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور اسپورٹس منسٹر بھی رہے ۔ زندگی بھر وہ کرکٹ کیلئے بلا معاوضہ خدمت کرتے رہے ۔ 1984ء میں انڈر 14کرکٹ ٹورنامنٹ اسپانسرز کیا ۔ وہ ایمپائرنگ بھی کر چکے ہیں۔ خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور اپنے اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ بھی منعقد کرواتے رہے ہیں۔ جن میں رمضانوں میں تو تمام رات اسٹیڈیم میں مختلف میچز ہوتے تھے ۔
ہاں تو ذکر ہو رہا تھا کراچی سے لندن تک کے سفر کا ۔ راستہ بھر گپ شپ ہوتی رہی۔ جب لندن ائیر پورٹ پر اترا تو پی آئی اے کا عملہ ان کے استقبال کیلئے موجود تھا ۔ بہت خوش و خرم دکھائی دے رہے تھے ۔ باہر آنے پر کہنے لگے اس ویک اینڈ یعنی ہفتے کی رات میرے گھر تمہاری دعوت ہے ضرور آنا ۔ میں نے بھی حامی بھر لی ۔ آپس میں لندن کا پتہ بھی لے لیا اور ایک دوسرے کے فون نمبرز بھی لیے ۔ جمعہ کی رات کو فون کر کے مجھے دعوت کی دوبارہ یا د دہانی کرائی۔ میں لندن میں اپنی بیٹی اور داماد کے گھر ہی ٹھہرتا ہوں تو دونوں نے مجھے کہا کہ پاپا آپ چند دنوں کے لیئے ہی تو ہمارے ہاں آتے ہیں ۔ ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دیں گے ۔ خصوصاً ویک اینڈ پر بچوں کی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں وہ سب ناراض ہونگے ۔ میں نے کہا بیٹا اب تو میں زبان دے چکا ہوں ۔ آپ مجھے ان کے گھر ڈراپ کر دیں ۔ واپسی پر میں آپ کو فون کر دوں گا ۔ بہر حال ہفتے کی شام میرے بچوں نے ڈاکٹر صاحب کے گھر جو ائیر پورٹ کے قریب واقع تھا پہنچا دیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے بچوں کو بھی دعوت دی مگر بچوں کے اپنے پروگرام تھے ۔ انہوں نے معذرت کی کہ ہم تو لندن میں ہی رہتے ہیں انشاء اللہ آئندہ سہی۔ شام ہوتے ہی ان کے گھر دیگر مہمان بھی آنا شروع ہو گئے جن میں ہاکی کے سابق کپتان جناب اصلاح الدین ، کرکٹ کے سابق کپتان مشتاق محمد بھی جو لندن سے باہر رہتے ہیں پہنچ گئے ۔ سرجن فیض محمد ،انگلینڈ ٹیم کے اویس شاہ کے والد ،پی آئے کے منیجر اور ان کے کئی مقامی دوست جمع ہوئے ۔ بہت پر تکلف کھانے لندن جیسی جگہ میں گھر میں پکے ہوئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بنفس نفیس پیش کئے۔ رات گئے گپ شپ میں پتہ نہیں چلا ۔ تقریباً آدھی رات ہو چکی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اب مجھے رات کو واپس جانے کی ضرورت نہیں ۔ مشتاق محمد بھی باہر سے آئے تھے ۔ ہم دونوں رات کو انہی کے گھر ٹھہر گئے ۔ صبح تو ڈاکٹر صاحب نے حد کر دی ۔ ناشتے میں مغز ، پراٹھے ، قیمہ ، انڈے ان کی بہن صاحبہ نے خود اپنے ہاتھوں سے پکائے اور گرم چائے کے ساتھ گرم گرم پراٹھے کھلائے سب نے خوب سیر ہو کر کھائے ۔ ناشتے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میری عادت ہے کہ میں اپنے نئے مہمانوں کا فوٹو ضرور بناتا ہوں ۔ چنانچہ خود انہوں نے اپنے کیمرے سے میرا اور اپنا فوٹو بنوایااور پھر آئندہ ملنے کے لئے وعدے وعید ہوئے اور مجھے رخصت کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ان سے یہ آخری ملاقات ہے۔ میں وہاں سے کینیڈا چلا گیا ، اپنے صاحبزادوں سے ملنے ۔ پھر کراچی ایک ہفتے قبل ہی لوٹا تھا کہ 4فروری2013ءء کو ان کی اچانک وفات کی خبر سنی کانوں کو یقین نہیں آیا۔ جناب سراج الاسلام بخاری صاحب نے تصدیق کی اور معلوم ہوا کہ مرحوم 2سال سے بلڈ کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے اور بار بار لندن آکر اس کا علاج کراتے رہے اور اس مرض کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیا اور بہادری سے مقابلہ کرتے رہے اور بہت سے یار دوستوں کو بھی نہیں معلوم ہو سکا ۔ اور وہ اس مرتبہ امریکہ علاج کے لئے گئے مگر موت نے مہلت نہیں دی اور وہیں زندگی کا کیچ دے بیٹھے ۔ جسدِ خاکی 7فروری2013ءء کو لایا گیا اور اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں ہی ہزاروں مداحوں ، عزیز واقارب، دوستوں ، ملازموں کو سوگوار کر کے سفر آخر اختیار کیا اور پاپوش نگر قبرستان میں سپر د خاک کر دیا گیا۔ دنیا بھر گھومنے پھرنے والا، زندگی بھر کامیابیوں کا کھیل کھیلنے والا، مختلف تمغوں کا حاصل کرنے والا ، گینز بک کے ریکارڈ کے مطابق 80ہزار آپریشن کر کے دوسروں کو نئی زندگیاں دینے والا اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
رہ رہ کر ان کا آخری جملہ یاد آرہا ہے کہ خلیل بھائی جب لندن آوٴ تو میرے ساتھ کھانا ضرور کھانا ۔ اب نہ وہ رہے نہ میرے وہ فوٹو بھجوا سکے ۔ میرے لبوں پر دعا ہے کہ الله تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔( آمین )۔
تازہ ترین