• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی ،جسے اب بہت سے افراد کچراچی کہنے لگے ہیں،طویل عرصے سے گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔اس کا نسبتا نیا مسئلہ گندگی اور غلاظت کا ہے۔اگرچہ اس مسئلے کو بھی کئی برس بیت چکے ہیں ،لیکن اس کی شدت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔اس کی وجہ ایک نہیں بلکہ کئی عوامل ہیں۔دراصل عدم توجہ، نااہلی،گندی سیاست اور بدعنوانی نے عروس البلاد کو غلاظت کا ڈھیر بنادیا ہے ۔

کچرے کی سیاست یا کچرا سیاست؟

ان دنوں اس مسئلے پر شہر میں جو سیاست ہورہی ہے اور اس میں جو الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں انہوں نے ماحول کو مزید متعفّن کردیا ہے۔سیاست داں ایک دوسرے پر جس طرح کے الزامات لگارہے ہیں اور جس طرح پینترے بدل رہے ہیں وہ قابلِ نفریں عمل ہے۔ہر سیاسی جماعت اس مسئلے پر سیاست کررہی ہے،لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے طورپر کو ئی ماڈل پروجیکٹ سامنے نہیں لارہی۔ہر جماعت اختیارات اور وسائل ملنے کی شرط پر کچھ کرکے دکھانے کی بات کی جارہی ہے۔ابھی چند ہی یوم قبل کراچی کے سابق ناظم اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے میئر کراچی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شہر قائد کی صفائی کا تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ پیش کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لیے پانچ گاربیج ٹرانسفر اسٹیشنز فوری طورپر بنائے جائیں، گاربیج ٹرانسفر اسٹیشنزکے لیے وفاقی حکومت رقم فراہم کرے، حکومت سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ ختم کرے اور سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے اختیارات یو سی چیئرمینز کو دیے جائیں۔مصطفیٰ کمال نے میئر کراچی، وسیم اختر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شہر کو صاف کرنے کی پیش کش بھی کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں لاجسٹکس مجھے دے دیں، ان ہی وسائل کے ساتھ تین ماہ میں شہر کی صفائی کر دیں گے۔انہوں نے سوال کیا تھا کہ کیا کراچی میں صفائی کے معاملے پر یو این او کو بلانا پڑے گا، اربوں روپےکچرا اٹھانے، تنخواہوں اور ایندھن کی مد میں خرچ ہو رہے ہیں، اس کے باوجود کراچی میں صفائی نہیں ہو رہی، یہ کراچی اور اس کے شہریوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔اس کے بعد میئر صاحب نے انہیں تین ماہ کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج مقرر کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا ۔لیکن شہر سے کچرا صاف کرنے کےلیے مققر کیے گئے پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج، مصطفیٰ کمال کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس کے ایم سی افسران کی عدم شرکت کے باعث نہ ہوسکا۔میئر کراچی کی جانب سے پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج مقرر کیے جانے کے بعد مصطفیٰ کمال نے رات گئے اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں اجلاس طلب کیا تھا جس میں کے ایم سی افسران کو شرکت کی ہدایت کی گئی تھی۔ تاہم افسران کی عدم شرکت کے باعث یہ اجلاس نہ ہوسکا اور مصطفیٰ کمال اسٹیڈیم سے واپس روانہ ہوگئے۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کے افسران کو بریفنگ کے لیے بلایا تھا مگر وہ نہیں آئے، افسران نے بتایا کہ میئر کراچی نے انہیں آنے سے منع کردیا۔ میئر کو بھی فون کیا انہوں نے فون نہیں اٹھایا، چاہتا تھا کہ اپنے باس کو پیش رفت سے آگاہ کرسکوں۔انہوں نے کہا تھا کہ شہر میں ایمرجنسی نافذ کی ہے، ہمیں رات دن کام کرناہے،بہ حیثیت ڈائریکٹر محکمے سے بریفنگ لوں گا، میرے باس صرف میئر کراچی ہیں اور باقی دیگر میرے ماتحت ہیں۔ موجودہ انتظامیہ کی نیت کام کرنے کی نہیں بلکہ پیسہ کمانے کی ہے۔مجھے حرام نہیں کمانا اور وسائل اپنے لیے استعمال نہیں کرنے، موجودہ انتظامیہ نیت ٹھیک کر لے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور ستائیس اگست کو میئر صاحب نے انہیں معطل بھی کردیا۔یعنی محض چوبیس گھنٹے کی چاندنی تھی اور اب پھر کراچی والے تاریکی میں چلے گئے ہیں۔انہیں ایک موہوم سی امید نظر آئی تھی ،لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک نہ رہنے دی گئی۔

اس سے قبل سابق وزیر بلدیات سندھ،سعید غنی اور میئر کراچی میں لفظوں کی جنگ جاری تھی۔پھر وفاقی وزیر آبی وسائل علی زیدی کراچی کو صاف کرنے کا مشن لے کر میدان میں اترے،کچھ شور شرابہ ہوا،تصاویر اور خبریں بنیں،کام کرنے کے دعوے ہوئے اور پھر بارش ہوگئی ۔ اس بارش نے سب کے دعووں کی ایسی ’’دھلائی ‘‘کی کہ سب کو اپنا چہرہ کئی روز تک سڑکوں پر کھڑے ’’صاف‘‘پانی میں ’’صاف‘‘ دکھائی دینے لگا۔لیکن کسی نے ’’صاف‘‘ دل کے ساتھ کراچی والوں کے ساتھ کھیلواڑ کرنے کا اعتراف نہیں کیا۔کیا سیاست اسی کا نام ہے؟کیا ’’انصاف‘‘ اسی کو کہتے ہیں؟کیا’’ پیپلز‘‘ کے لیے اسی طرح زندگی گزارنا مقدر کردیا گیا ہے؟کیا ’’متحدہ ‘‘قوت کچھ نہیں کرسکتی؟کیا ’’پاک سرزمین‘‘ ایسی ہی ہوتی ہے؟کیا ’’اسلامی ‘‘ فکر محض الزامات لگانے اور اختیارات نہ ملنے تک کچھ کرکے نہ دکھانے کا نام ہے؟کیا نشست جیتنے کے بعد مسائل کو فکس اِٹ‘‘کرنے کا کام بھلا دینا ہی سیاست ہے؟اگر ان ہی سب کا نام سیاست ہے تو کراچی والے اس سیاست کو ان دنوں جن الفاظ سے یاد کررہے ہیں وہ الفاظ یہاں لکھے نہیں جاسکتے، لیکن کراچی کے ہر باشعور شہری کے ماتھے پر لکھے ہوئے الفاظ پڑھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے،اگر کوئی پڑھنا چاہے تو۔

شہری دوہری اذیت کا شکار

کراچی کے مختلف علاقوں میں عید کے بعد سے کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور شدید تعفن کے باعث شہری دوہری اذیت کا شکار ہیں۔کلین کراچی مہم چلانے والے وفاقی وزیر علی زیدی اور میئر کراچی وسیم اختر اس صورت حال کی ذ مے داری سندھ سرکار پر ڈالتے ہیں تو جواب میں وزیر اطلاعات سعید غنی نے دونوں کو صورت حال کا ذمے دار ٹھہرا دیا ۔عید قربان کو گزرے دوتین ہفتے ہوچکے ہیں،لیکن ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر کچرا کنڈی سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔ کلین کراچی مہم میں سرگرم وفاقی وزیر علی زیدی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نالوں میں کچرا پھینکنے پر دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت پابندی عاید کی جائے۔میئر کراچی وسیم اختر نے سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہےکہ کے ایم سی کو سندھ حکومت کے حصے کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی کہاں چپ رہنے والے تھے،لہذا انہوں نے کہا کہ برساتی نالوں سے نکالا گیا کچرا گاربیج ٹرانسفر اسٹیشز اور کھلے میدانوں میں ڈال دیا گیا ہےجس سے صفائی کی صورت حال مزید ابتر ہوئی۔کراچی میں صفائی اور کچرا اٹھانے کے کام میں سرگرم وفاقی و صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے منصوبہ بندی کے معاملہ پر ایک ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر مظاہرہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اس ساری صورت حال کا خمیازہ شہری بھگت رہے ہیں۔

ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اس ضمن میں طوفان اٹھنے کے بعد سندھ حکومت نےاتنا کیا کہ شہر کی صفائی نہ ہونے پر کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا۔سندھ حکومت کی جانب سے جاری شدہ نوٹی فکیشن کےمطابق چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ اکتوبر 2017 کو ہوا تھا۔ کمپنی کی جانب سے معاہدے پرعمل درآمد نہیں کیا گیا اور کنٹریکٹ کے پہلے ہی دن سے اس کی پاس داری نہیں کی گئی۔نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہےکہ مشینری اور نظام نہ ہونے سے شہریوں کو پریشانی رہی، معاہدے کی منسوخی سے قبل متعدد بار نوٹسز اور شوکاز دیے گئے،لیکن انہیں نظر انداز کیا گیا۔سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے چینی کمپنی کے سربراہ کو اس بارے میں آگاہ کردیا ہے۔یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ پہلے ہی روز سے معاہدے کی خلاف ورزی ہورہی تھی اور مشینری اور نظام نہیں تھا تو اب تک صوبائی حکومت خاموش کیوں تھی اور اب اسے کیسے خیال آگیا؟

کچرے کا چیلنج

پچیس اگست کو یہ خبر ذرایع ابلاغ کی زینت بنی تھی کہ صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث سندھ حکومت نے بلدیاتی افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔خبر میں کہا گیا تھا کہ ایک سمری محکمہ قانون سندھ کو ارسال کی گئی ہے جس میں بلدیاتی کونسلز کے گریڈ 15 تا 18 کے افسران کو مجسٹریسی اختیارات دینے کی تجویزدی گئی ہے کیوں کہ کراچی کا ہزاروں ٹن کچرا حکومت سندھ کے لیے چیلنج بن گیا ہے اورچینی کمپنیز کو آزمانے کے بعد اب سندھ حکومت نے کراچی کی صفائی کے حوالے سے بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیاتی افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے پر غور شروع کر دیاگیا ہے۔ اس ضمن میں محکمہ بلدیات نے سمری محکمہ قانون کو ارسال کردی ہے جس کے مطابق بلدیاتی مجسٹریٹ کچرا پھینکنے، جلانے اور غیرقانونی کچرا کنڈی بنانے والوں کےخلاف کارروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔ صوبے کی تمام بلدیاتی کونسلز کے گریڈ 15 تا 18 کے افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات ملنے پر میونسپل مجسٹریٹ جرم پر فوری سزا دینے کے مجاز ہوں گے۔ میونسپل مجسٹریٹس سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کریں گے۔ اس حوالے سے محکمہ بلدیات اور محکمہ قانون کے حکام کے درمیان مشاورت بھی جاری ہے۔

مسائل کی جڑ کو سمجھنے کی ضرورت

ان دنوں یوں محسوس ہورہا ہے کہ سندھ کی پوری سیاست کراچی کے کچرے پر ٹکی ہوئی ہے۔حالاں کہ کراچی صرف اپنے کچرے کی آمدن سے خود کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اسے کچرا نہیں بلکہ قیمتی قدرتی وسائل میں شمار کرنے کی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ کراچی میں یومیہ تقریباً 12000 ٹن کچرا(محتاط اندازے کے مطابق )پیدا ہوتا ہے ۔ آپ اس کچرے کی مالیت اور اس سے ہونے والی آمدن کا تخمینہ خود لگا سکتے ہیں۔ کراچی کا کچرا اٹھانے کی ذمے داری کراچی کی لوکل گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والے ادارے کے ایم سی کے پاس ہے چناں چہ اً اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی کراچی کا حق ہونا چاہیے۔لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایک عشرے سے کے ایم سی اپنی ذمے داریاں درست طریقے سے ادا نہیں کر رہا ۔ اسی وجہ سے آج کراچی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کراچی کی لوکل گورنمنٹ سندھ حکومت کے ماتحت ہے۔کے ایم سی کی غیر ذمے داری اور فرائض سے غفلت پر باز پرس کرنے کے بجائے صوبائی حکومت نے ایک محکمہ سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی تشکیل دیا اور کچرا اٹھانے کی ذمے داری اس محکمے کے سپرد کردی۔ یہ محکمہ وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہے۔اب اگر کراچی کا کچراکے ایم سی کے بجائے سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی کے تحت اٹھایا جائے گا تو یقیناً اس کی آمدن بھی کراچی کے بجائے سندھ حکومت کی جیب میں جائے گی۔ عملی طور پر یہ محکمہ تقریباً غیر فعال ہے، مگر صوبائی حکومت لوکل گورنمنٹ کے معاملات میں ٹانگ اڑانے میں آگے آگے ہے۔ کراچی کے کچرے کے معاملے پر صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کے مابین چلنے والی عدالتی جنگ اور عدالتی احکامات کی تفصیل آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائے گی۔ یہ محکمہ کلّی طور پر غیر فعال اور شہر پر ایک مالیاتی بوجھ ہے کیونکہ کے ایم سی پہلے ہی کراچی کا کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے جیسے معاملات پر ایک خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔کے ایم سی اورسندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی کے درمیان ہونے والی رسہ کشی میں کراچی کی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ کراچی کے شہری نہ صرف گندگی اور تعفن کے عذاب میں مبتلا ہیں بلکہ کچرے کی وجہ سے مچھروں کی بہتات اور مختلف بیماریاں بھی کراچی والوں کے لیے عذاب مسلسل ہے۔سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی ہی وہ محکمہ ہے جس نے کراچی کا کچرا اٹھانے کی دعوت چینی کمپنیوں کو دی تھی۔

اس شہر میں سیاست کے کئی رخ ہیں۔اگر آپ کراچی کی جیو پولیٹیکل جہات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذرا اتحاد ٹاؤن سے اسٹیل ٹاؤن، کیماڑی سے نیو کراچی، شیر شاہ سے محکمہ موسمیات، ڈیفنس سے النورسوسائٹی اور اورنگی سے منگھوپیر تک کا ایک دورہ بس میں کر لیں۔ آپ کو کراچی کے تمام مسائل کا ادراک ہوجائے گا اور آپ کو اصل کراچی بھی انہیں رستوں پر دکھائی دے گا۔ کراچی ہر مہمان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے دامن میں سمیٹ لیتاہے اور کراچی والے اپنی روٹی اور اپنا روزگار نئے مہمانوں کے لیے مزید گھٹا کر ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر جب کراچی والوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جانے لگتی ہیں۔

اگر آپ کراچی کی تباہی کو پورے صوبہ سندھ کی تباہ حالی سے الگ کر کے دیکھتے ہیں تو آپ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ اگر آپ نے پچھلے دس سالوں میں کراچی کی آبادی میں ایک منظم مگر غیر فطری اضافہ محسوس نہیں کیا تو آپ کو اتحاد ٹاؤن، فقیر کالونی، شیر پاؤ کالونی، قائد آباد، سہراب گوٹھ، سلطان آباد، بنارس، صفورا گوٹھ، گلستان جوہر، سچل گوٹھ، گودھرا اور خدا کی بستی کا دورہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس دورے سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کراچی پر معاشی، سیاسی اور سماجی بوجھ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔آبادی کا یہ مستقل اضافہ نہ صرف کراچی کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے بلکہ اس کے ذریعے کراچی کی شکل وصورت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور اس کے انفرا اسٹرکچر پر بوجھ روز بہ روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔

ہم بھی تو ذمے دار ہیں

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی سڑکیں پانی سے دھلا کرتی تھیں۔ کیا واقعی؟؟ جی ہاں۔شاید آپ کو یقین نہ آئے، لیکن یہ حقیقت ہے ۔ 50 سے 70 کی دہائی میں سیاسی لوگ اپنے ملک و عوام سے مخلص اور ہم درد تھے۔ ان کو واقعی وہ سہولت فراہم کرنا چاہتے تھے جو عوام کا بنیادی حق ہے۔ پھر آہستہ آہستہ لو گ خود پسند ہوتے گئے صرف میں اور اپنے حق کے بارے میں سوچنے لگے۔ میرے کراچی کی وہ صاف ستھری سڑکیں،میدان پارک، لائبریری اور سنیما ایک ایک کرکے بکنے لگے اور ان کی جگہ شاپنگ سینٹر، پلازا اور سب سے بڑے بزنس پرائیویٹ اسکولز بن گئے اور پورے ملک سے لوگ کراچی میں آکر بسنا شروع ہوگئے۔ کراچی واحد شہر ہے جہاں آپ کو ہر نسل اور ہر قومیت پنجابی،سندھی،بلوچی،پٹھان، سرائیکی سب ملیں گے۔ یہ شہر سب کاہے، مگر اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں حالاں کہ یہاں دو بندرگاہیں ہیں۔ اگر صرف ساحل پر ہی اچھے پکنک اسپاٹ بنا دیے جائیں تو سیاحتی پروگرامز کے ذریعے زبردست کمائی ہوسکتی ہے۔ مگر کیا کریں کہ ایسا سوچنے والا کوئی نہیں۔ عوام بے چارے گندگی غلاظت اور ابلتے گٹر کے عادی ہو گئے ہیں،بجلی اور پانی کے بغیر گزارہ کررہے ہیں، مگر غلطی سے جو سیاح اور ورکرزبیرونی ملکوں سے کراچی آتے ہیں وہ آکر یہاں کا کچرا دیکھ کر اپنے ملک جا کر کیا قصیدے پڑھتے ہوں گے؟ کیا کسی نےیہ سوچاہے؟ کس قدر شرم کی بات ہے۔ گندی غلاظت، کچرا، ابلتے گٹراور گندگی کا جو آتش فشاں جگہ جگہ نظر آرہاہےاس سے اب لاوا نکلنا شروع ہو گیاہے۔جی ہاں لاوا۔ ڈینگی، ڈا ئریا، یرقان اور ملیریا کا لاوا۔ اور یہ لاوا پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ہر گھر میں مریض پا ئے جا رہے ہیں۔لہذا اب تو کچھ کیجیے اے چارہ گر۔

شفافیت اوراونر شپ کا فقدان

کراچی کے بہت سے مسائل کی ایک اہم وجہ اس کے معاملات میں شفافیت اور اونر شپ کا فقدان بھی ہے ۔کراچی پاکستان کا سابق دارالحکومت اور صوبہ سندھ کا موجودہ دارالحکومت ہے،جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا شہر اور ملک کی معیشت میں 65 فی صد ریونیو دینے والا شہرہے ۔لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔اسے اپنا شہر تو ہر کوئی کہتا ہے، لیکن اپنا سمجھتا کوئی نہیں۔

ڈیڑھ سو برسوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ غیر سرکاری اورعالمی ذرایع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24ملین ہے۔ جو 1947ء کے مقابلے میں 37گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی صرف 4 لاکھ تھی۔تقسیم ہند کے نتیجے میں 10لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اس شہر کو صحیح معنوں میں شہر بنایا اور اسے اس قابل بنایا کہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک سے لوگ یہاں روزگارکے لیے آتے ہیں اور یہ شہر ہر ایک کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اسے روزگار فراہم کرتا ہے۔

اس شہر کی آبادی اس وقت پانچ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے لوگوں کی شہروں میں منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔اس بڑھتی ہجرت نے کراچی کو دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک بنا دیا ہے۔کراچی ایک کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی بین الاقوامی شہر ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں کراچی کے ساتھ ظلم ہوا اور اس کی آبادی صرف دیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی حالاں کہ غیر سرکاری اعدادوشمارکے مطابق اس وقت کراچی دوکروڑ 40 لاکھ سے زاید آبادی کا شہر ہے۔

یہ شہر دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس لیےاسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، ماحولیات، پینے کے پانی کی کمی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے بدترین مسائل اور بنیادی شہری سہولتوں کے فقدان کا سامناہے۔اس وقت کراچی کے سرفہرست مسائل ٹریفک ، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے کو ٹھکانے لگانا اور پینے کے پانی کی فراہمی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک کےحادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔بڑھتا ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ٹریفک کے علاوہ کوڑے کرکٹ کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی ہے۔ کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے۔درختوں کی کٹائی پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا،لیکن یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ شہر میں کئی مرتبہ شجر کاری مہم کے اعلانات ہوئے ،لیکن کسی کو بھی نتیجہ خیز نہیں بنایا جاسکا۔

پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہل کاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر تجاوازات اور غیر قانونی تعمیرات کا مسئلہ کراچی کے عوام اوران کی آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔اس کے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل بھی شہر کے بڑے مسائل ہیں۔ شہر کی جابہ جا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سیوریج کے بدترین نظام، اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں نے کراچی کو’’کچراچی‘‘بنا دیا ہے۔

2001 سے 2008 تک کے دوران شہر میں دو مختلف جماعتوں کی شہری حکومت کی وجہ سے اس شہر کا حلیہ کچھ بہتر ہونا شروع ہواتھا، لیکن اس کے بعد شہری حکومت صرف نام کو رہ گئی اور رفتہ رفتہ سارے مقامی حکومتوں کے اختیارات سندھ حکومت کو منتقل ہوگئے،بس پھرایسا لگا جیسے کراچی یتیم ہوگیا اور اس کا کوئی والی وارث ہی نہیں رہا۔آج کراچی کے باسی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس شہر سے فایدہ سب اٹھاتے ہیں ،لیکن اسے کوئی فایدہ دینے کو تیار نہیں۔

دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے مابین رسہ کشی نے شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو یا تو ختم کردیا ہےیا اتنا سست کردیا کہ شہر میں ترقی کے نام پر جگہ جگہ کھنڈرات ابھرنے لگے اور ہر چیز تباہی کی جانب گام زن ہوگئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دس برسوں کے دوران حکومت نے کراچی کا سب سے زیادہ برا حال کیا اور اب یہ شہر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔2018 کے عام انتخابات کے بعد شہر کی سب سے زیادہ طاقت ور سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جگہ تحریک انصاف نے لی اور اہلیان کراچی کو یہ یقین دلایا گیا کہ اب شہر کا نقشہ تبدیل ہوجائے گا۔اب شہر کے باسی یہ کہتے ہیں کہ شہر کا نقشہ تو تبدیل ہوگیا، لیکن اس نقشے میں ہر جگہ، کچرا، ٹوٹی سڑکیں، گلیوں محلوں میں بہتا سیوریج کا پانی، بے ہنگم ٹریفک، اسٹریٹ کرائمز اور پینے کے پانی کے نایاب ہونے کی صورت میں ایک نیا کراچی سامنے آچکا ہے۔

اہلیان کراچی اب بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو اتنا توڑا مروڑا نہ جائے کہ یہ ٹوٹ کر ایسا بکھرے کے سمیٹے نہ سمیٹا جائے۔شہر کے باسی سڑکوں کی تعمیر، ٹریفک کے نظام میں بہتری، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام، سیوریج اور کچرے کے مسائل اورپینےکےپانی کی فراہمی جیسے مسائل حل ہونے کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کوئی تو آئے جو کہے کہ یہ شہر ہمارا ہے، ہم سب کاہے اور اس کے ساتھ مخلص ہوکر اسے پورا نہ صحیح اس حصے میں سے 25فی صد ہی دے دیا جائے جتنا اس شہر نے اس ملک کواب تک دیا ہے۔کیا کوئی ان کی آواز سنے گا؟

تازہ ترین