• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی جانب سے (مقبوضہ کشمیر) کی خصوصی حیثیت کو ختم کئے جانے کے ناجائز اقدام کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں مزید جان پڑ گئی ہے اور اس امر کے باوجود کہ 9لاکھ سے زائد قابض بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی ہے مظلوم کشمیری اپنے حق سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ تین ہفتے سے زائد گزر چکے ہیں۔ عملاً مقبوضہ وادی میں کرفیو کی شکل میں مارشل لاء نافذ ہے۔ لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے۔ بچے دودھ کیلئے بلک رہے ہیں، بیماروں کو دوائیں تک میسر نہیں، دراصل یہ وہ ذہنیت ہے جس کا سامنا برصغیر کے مسلمان ہمیشہ کرتے آئے ہیں، تقسیم ہند کے وقت مہاتما گاندھی نے سیکولر نظریہ پیش کیا تھا، برسوں بھارت سیکولر ازم کا پرچار کرتا رہا جبکہ عملی طور پر اب گاندھی کا وہ نظریہ دفن ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس قائداعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریے پر آج فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے وہ کشمیری رہنما بھی ایمان لانے پر مجبور ہو گئے ہیں جو کل تک بھارت نوازی میں آگے آگے تھے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھارت میں کانگریس پارٹی کے بعد بھارتیہ جنتہ پارٹی (BJP)نے راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)سے جنم لیا۔ آر ایس ایس وہی تنظیم ہے جس کے نظریات کے حامی نتھو رام گوڈ سے نے گاندھی جی کو قتل کیا تھا آج بھی آر ایس ایس کی چھ لاکھ ملیشیاء بی جے پی کے پیچھے ہے اور بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم ڈھانے میں پیش پیش ہے۔ ان ہی نے چند سال قبل امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر سکھ برادری کے افراد کو قتل کیا تھا اور الزام پاکستان پر لگانے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی نائب وزیر خارجہ نے اس الزام کو جھوٹ اور لغو قرار دیا تھا۔

کشمیر تقسیم ہند کے وقت سے متنازع رہا ہے۔ تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریت کی بنیاد پر کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن بھارت نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھی عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1965میں جب پاکستانی فوجیں اکھنور تک پہنچ گئی تھی اور مقبوضہ کشمیر کچھ فاصلے پر تھا اس وقت کے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے تاشقند معاہدہ کر لیا بعد میں شملہ معاہدہ اور پھر اٹل بہاری واجپائی واہگہ بارڈر سے بس کے ذریعے آئے اور اعلان لاہور بھی ہوا لیکن مقبوضہ وادی کے مظلوم کشمیریوں کی حالت نہیں بدلی، حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اپنی جگہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ 1971پاک و بھارت جنگ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بیان دیا تھا کہ ہم نے دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں دفن کر دیا جو ہندو ذہنیت اور بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا ثبوت ہے۔ بھارت نے پاکستان کی سرحد کے قریب پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے جس کا جواب پاکستان نے 28مئی کو چاغی میں چھ ایٹمی دھماکوں کی شکل میں دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کارگل میں عبرتناک شکست کے بعد 10ماہ تک سرحد پر فوجوں کے آمنے سامنے ہونے کے باوجود بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی کی جرات نہیں ہوئی ماسوائے اس کے کہ وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں سے باز نہیں آیا جس پر سفارتی سطح پر پاکستان کا احتجاج جاری رہا۔ 5اگست2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے بھارتی یونین میں شامل کرنا وہ بھارتی اقدام ہے جس پر ہرگز خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ آج مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمان جس ظلم و ستم اور لاچارگی سے دوچار ہیں وہ دنیا بھر کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ بیلٹ گنوں کا استعمال اور ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری مسلمانوں کی شہادت اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ بھارتی آئین میں تبدیلی مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھی گھنائونی سازش ہے وہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔ بھارت کے اس یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کے خلاف پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا تو 16اگست کو سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس کی صورت میں پاکستان کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی اس اجلاس میں واضح طور پر ایک بار پھر کشمیر کو بھارت کے اندرونی مسئلے کے بجائے عالمی طور پر متنازعہ قرار دیا گیا جبکہ چین نے بھارتی اقدام کو چین کی خود مختاری پر حملہ بھی قرار دیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیہ پر بھارت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی حتیٰ کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اعلان کر دیا کہ پاکستان پر ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت بھی جاری ہے۔ نریندر مودی اور بھارت کے اس طرز عمل کے بعد اقوام عالم کے لئے یہ طے کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ مودی جیسےجنگجو ذہنیت رکھنے والے افراد کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا خطے اور دنیا کے لئے کس قدر تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اب لگتا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ قریب ہے۔ قائد محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ دو ٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا کشمیر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہے اور ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر بنے گا پاکستان۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین