• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیڈیالوجی اور نظریاتی وابستگی انسان میں لگن، جذبہ اور آرزو پیدا کرتی ہے۔ بقول شاعر آرزو سے ہے گرمیٔ خاطر اور گرمیٔ خاطر زندگی کی امنگ کا نام ہے۔ حقیقت پسندی اور مادی اپروچ نہ صرف زندگی کی محبت کے پھولوں اور بے نام خوابوں کو ویران کر دیتی ہے بلکہ انسان میں ایک بدمزگی، مایوسی یا دل شکنی اور تشکیک کا مادہ بھی پیدا کرتی ہے۔ خوابوں میں رہنے والا انسان حسین نقشے بناتا اور توڑتا رہتا ہے، روشن مستقبل پر یقین رکھے آنے والے کل کی امید پر مطمئن یا خوش رہتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت پسندی کا دعویدار ٹوٹتا پھوٹتا رہتا ہے چونکہ حقائق ہمیشہ اپنے باطن میں ایسی سچائیاں چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں جن کے بے نقاب ہوتے ہی مایوسی اور تلخی جنم لیتی ہے۔ سوچنے والے حضرات کو آپ ’’فکری‘‘ حضرات بھی کہہ سکتے ہیں حالانکہ گزشتہ دو دہائیوں سے انہیں دانشور کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ دانشوری کبھی کانٹا اور کبھی پھول بن جاتی ہے۔ خلوصِ نیت اور محبت سے پکاریں تو پھول اور طنزاً مخاطب ہوں تو کانٹا- ایسا کانٹا جو دونوں جانب چبھتا ہے۔ مخاطب کو بھی چبھتا ہے اور خطاب کرنے والے کے دل میں بھی چبھن پیدا کرتا ہے۔ اگر زندہ ہی رہنا ہے تو پھر خواب پالنے میں کیا حرج ہے۔ امیدوں، توقعات اور آرزوئوں کے پھول کھلتے رہیں تو طبیعت میں اک کیف سا، اک مستی سی کی کیفیت رہتی ہے لیکن اگر انسان سر تا پا حقیقت پسند ہوکر مادی دنیا کا باشندہ بن جائے، ہر وقت حقائق کے کانٹوں سے دل کو مجروح اور ذہن کو بوجھل رکھے تو غموں اور پریشانیوں کی دیمک اندر ہی اندر سے چاٹنا شروع کر دیتی ہے اور جسمانی کمزوری کا حادثہ رونما ہوتے ہی بیماریاں حملہ آور ہو جاتی ہیں۔

رومانس انسانی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ یا انسان کا مخلص دوست ہوتا ہے۔ حقیقت پرستی، تلخ حقائق اور مادی اپروچ انسان کی دشمن ثابت ہوتی ہے اور اسے قنوطیت کا مریض بنا دیتی ہے۔ انسانوں کی مانند قومیں بھی رومانیت Romanticismکی اسیر ہوتی ہیں۔ وہ بعض اشیا، ممالک، جگہوں اور لوگوں سے رومانس میں مبتلا ہوتی ہیں۔ عام طور پر ایسے رومانس نظریاتی سوچ کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور بغیر کسی تجربے، تجزیے یا مشاہدے کے دلوں اور ذہنوں میں چلتے رہتے ہیں۔ جب اچانک ایسے رومانس کو حقیقت کی ٹھوکر لگتی ہے تو قومیں ہڑبڑا کر آنکھیں کھولتیں اور اداسی یا دل شکنی کا شکار ہو جاتی ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نظریاتی رومانس کو ٹھوکر لگنے سے جو صدمے کی کیفیت جنم لیتی ہے وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ صدمات کی اپنی خصوصیت یہی ہے کہ وہ وقتی اور عارضی ہوتے ہیں۔ یہ نظامِ قدرت کا اصول ہے کہ صدمہ آتا اور گزر جاتا ہے۔ وقت زخم پر مرہم رکھتا اور زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔ شدید صدمے کی صورت میں مندمل زخم اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے لیکن وقت اسے بھی آہستہ آہستہ مدھم کر دیتا ہے۔ زندگی میں کوئی شے بھی مستقل یا ابدی نہیں۔ نہ خوشی ابدی ہے نہ غم اور نہ ہی صدمہ ابدی ہے۔ جہاں حسنِ ظن، نظریاتی لگن اور زندگی سے رومانس کے پھول کھلتے ہوں یا خواب پلتے ہوں وہاں صدمے جلد مندمل ہو کر لاشعور میں جا بستے ہیں لیکن جہاں ہمہ وقت حقائق کا سورج چمکتا رہے وہاں زندگی کے زخم تادیر رِستے رہتے ہیں۔ قوموں کے رومانس کی ایک چھوٹی سی مثال خلیجی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے مودی کو اعلیٰ ترین اعزاز کی عطا ہے۔ اگر عام حالات میں یہ ایوارڈز دیئے جاتے تو پاکستانی قوم ایک آدھ تلخ گھونٹ پی کر صبر کر لیتی، جیسا اس سے پہلے ہو چکا۔ جب اِس سے پہلے ایک بڑے عرب ملک کی حکومت نے مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا تھا تو رومانس کی ماری پاکستانی قوم کی دل شکنی ہوئی تھی لیکن وقتی طور پر۔ اسی طرح جب سوشل میڈیا پر ایک خلیجی ملک میں تعمیر ہونے والے وسیع و عریض مندر کی تصویریں اور اس میں حکمرانوں کی آمد اور مختلف انداز وائرل ہوئے تھے تو پاکستانی عوام کے رومانس کو ذرا ٹھیس لگی تھی۔ خوابوں کے اسیر پاکستانی حضرات شاید نہیں جانتے کہ خلیجی ممالک میں ہندو بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، انہوں نے وہاں بے شمار کمپنیاں اور کاروباری ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کی شراکت سے عرب دولت کے انبار کما رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی، تعلیم اور اہلیت کے زور پر ہندو تمام عرب ممالک میں حد درجہ اثر و رسوخ حاصل کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی ان ممالک میں یا تو مزدور بن کر جاتا ہے یا پھر دولت چھپانے کے لئے جائیداد خریدنے جاتا ہے۔ بھارت کے کسی سابق صدر یا وزیراعظم کے عرب ممالک میں محلات نہیں اور نہ ہی اقامے ہیں جبکہ پاکستان کے سابق حکمرانوں کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے جس سے ہمارا قومی وقار ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ یاد کیجئے جب ایک عرب ملک کے حکمرانوں نے دوسرے عرب ملک کے خلاف پاکستان کی فوجی حمایت چاہی تو ہمارا قومی مفاد آڑے آیا اور پارلیمان نے اس کے خلاف قرارداد منظور کی جو برمحل تھی۔ اس وقت ایک تیسرے عرب ملک کے وزیرِ تعلیم نے ببانگِ دہل کہا تھا کہ اس کی پاکستان کو سزا دی جائے گی۔ عظمتِ رفتہ کے اسیر پاکستانیوں نے کہا کہ ایوب خان کے دور میں عرب ممالک کے حکمران صدر سے ملاقات کے لئے وقت مانگتے اور سفارشیں کرواتے تھے۔ وہ وقت گزر چکا، تیل کی دولت اور معاشی دوڑ میں وہ آگے جا چکے اور ہم ان سے جھولی پھیلائے قرض مانگنے جاتے ہیں۔ یہ ممالک آج امریکہ کی پناہ میں ہیں۔ ایٹمی پاکستان مضبوط، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہوتا تو یہ ممالک پاکستان کی حفاظتی پناہ میں ہوتے۔ پاکستانیوں کا عربی زبان اور عرب ممالک سے رومانس فطری، دیرینہ، قلبی اور روحانی ہے۔ شاید یہ یکطرفہ بھی ہے۔ قومی مفادات کی اس دنیا میں حقائق رومانس پر غالب آ جاتے ہیں۔ عربوں کے ملکی مفادات کبھی کبھار ہمارے رومانس کو ٹھوکر لگا دیتے ہیں لیکن تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ ٹھوکر اور دل شکنی وقتی ہوتی ہے۔ کشمیر سے بھی ہمارا رومان 73سال پرانا ہے۔ اب لداخ، جموں و کشمیر کو بھارت اپنا حصہ بنا چکا ہے۔ کل کلاں اگر امریکہ لداخ میں اپنی فوجی بیس بنا کر براجمان ہو گیا تو وہ آرام سے روس، چین، پاکستان، ایران، افغانستان، مڈل ایسٹ پر نگاہ رکھ سکے گا۔ پھر کشمیر کے لئے ہمارا رومانس کوئی نئی صورت نکالے گا کیونکہ یہ رومانس مرنے والا نہیں۔

تازہ ترین