• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں تحریک انصاف کے ایک کارکن ”چاچا ہمایوں“ کا بہت شہرہ ہے، جس نے کوہاٹ شہر کے ”جماعتی“ انتخابات میں اپنے حریف امیدوار کو بیس ووٹوں سے شکست دی اور تحریک انصاف کوہاٹ شہر کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس انتخاب میں پڑنے والے ووٹوں کی کل تعداد ساڑھے تین سو تھی، چاچا ہمایوں کے مقابلے میں کوئی جاگیردار یا وڈیرا نہیں کھڑا تھا بلکہ وہ بھی کوئی عام سا شہری تھا۔ چاچا ہمایوں درزی کا کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق غربت کی نچلی سطح سے نہیں ہے، بلکہ وہ ایک سفید پوش شخص ہیں، تحریک انصاف ان کی جیت سے یہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ ان کی جماعت واحد جماعت ہے جس میں غریب یا سفید پوش لوگوں کو بھی آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ایک بات سمجھ نہیں آ رہی اور وہ یہ کہ تحریک انصاف کے مطابق اس کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے تو کیا کوہاٹ شہر میں صرف تین چار سو افراد ہی کو جماعت کا رکن بننے کی سعادت حاصل ہوئی ہے؟ چاچا ہمایوں کی اس جیت پر فیس بک میں جماعت کے جیالوں نے ایک جشن کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ڈھیر سارے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جماعت میں اگر ایک سفید پوش نے جنم لے ہی لیا ہے تو خدا کیلئے اس کا منہ چوم چوم کر ہی نہ اسے مار ڈالیں، اسے کفایت شعاری سے خرچ کریں، اللہ اور بھی دے گا۔
چاچا ہمایوں کی جیت پر برادرم حامد میر نے بھی اپنے بقول پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں ایک پیکیج دکھاتے ہوئے کہا اگر کسی اور سیاسی جماعت میں بھی کوئی ”چاچا ہمایوں“ ہو تو اسے سامنے لایا جائے، وہ اسے بھی سراہیں گے تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں نہ صرف یہ کہ ایک سے ایک بڑھ کر ”چاچا“ موجود ہے بلکہ ”چاچا ہمایوں“ کے برعکس ان سب کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ بھی ملے، انہوں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کے مقابلے میں دو تین سو نہیں لاکھوں ووٹ بھی حاصل کئے اور ان کی جماعتوں نے انہیں بڑے بڑے مناصب پر بھی فائز کیا۔ مثلاً جماعت اسلامی میں ہمارے ایک ”چاچا غفور“ بھی تھے جنہیں پروفیسر غفور احمد کہا جاتا تھا۔ ایک سفید پوش مگر اپنی جماعت کا دماغ سمجھے جاتے تھے، جماعت کے مرکزی رہنما بنے، قومی سطح کے انتخابات میں لاکھوں ووٹ حاصل کئے۔ وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اسی طرح ”چاچا منور حسن“، ایک فقیر انسان مگر جماعت کے امیر ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ”چاچا جمشید دستی“ ان کی جماعت نے انہیں ٹکٹ دیا اور وہ مدمقابل بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچے۔ مسلم لیگ (ن) کے ”چاچا غلام حیدر وائیں“ جن کا مقابلہ ہی جاگیرداروں اور وڈیروں سے ہوا، کسی دوست کی سائیکل یا موٹر سائیکل پر لفٹ لے کر اپنی انتخابی مہم چلاتے تھے اور لاکھوں ووٹ لے کر حریفوں کو شکست سے دوچار کرتے تھے اور بالآخر شہید کر دیئے گئے۔ ان کی پارٹی نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا اور انہیں قیادت کا تاج پہنایا۔ مسلم لیگ (ن) ہی کے ایک اور ”چاچا احسان الدین قریشی“ جو ملتان کی ایک تنگ و تاریک گلی میں رہتے ہیں جس میں کار داخل ہی نہیں ہو سکتی ہر بار پارٹی ٹکٹ دیتی ہے اور وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ پارٹی نے انہیں پنجاب میں وزارت کے منصب پر بھی فائز کیا ہوا ہے۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں آپ کو جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، ایم کیو ایم، جماعت اہل حدیث، جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرست جماعتوں میں بھی مل جائیں گی۔ اور یہ اکا دکا مثالیں نہیں ہیں، اس میں مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ”چاچا صدیق الفاروق“، ”چاچا شکیل اعوان“، ”چاچا مشاہد اللہ خان“ اور پی پی پی کے ایک بونے مگر کردار کے حوالے سے دیو قامت کارکن (جن کا نام یاد نہیں آ رہا) کے علاوہ بیسیوں نہیں سیکڑوں نام اور بھی ہیں جو مختلف جماعتوں میں اہم مقام کے حامل ہیں جو پارٹی بھی اپنے کم وسیلہ کارکنوں کو اہمیت دیتی ہے میری نظروں میں وہ قابل احترام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی معرکہ گرم ہونے پر تحریک انصاف اپنے کن ارکان کو نوازتی ہے اور کن کے بارے میں سرد مہری اختیار کرتی ہے؟
اور اب آخر میں ایک ضروری بات! غریب ہونا کوئی کوالیفکیشن نہیں اور امیر ہونا کوئی برائی نہیں، اصل چیز کسی کا صاحب کردار ہونا ہے۔ یہ بات میں بعد میں کروں گا مجھے ماضی کا ایک اور ”چاچا“ یاد آگیا ہے، اسے جنرل ایوب خاں کے زمانے میں وزیر بنایا گیا تھا اور وزارت ملنے کے بعد یہ اپنے سائیکل پر قومی جھنڈا نصب کر کے سڑکوں پر پھرا کرتا تھا تو میں کہہ رہا تھا کہ قابل قدر بات کسی کا صاحب کردار ہونا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ سیاست میں کچھ غریب لوگ آگے آئے اور انہوں نے امیروں کے مقابلے میں بلکہ ان سے کچھ زیادہ کرپشن کی، اس کرپشن میں مال بنانے کے علاوہ اپنی پارٹی کی مخبری، اور وفا داریاں تبدیل کرنے کی شرمناک حرکات بھی شامل تھیں۔ میں ان کے نام نہیں لوں گا کہ ان میں سے بیشتر مر کھپ گئے ہیں اور ان کی ساری سرداریاں ان کے ساتھ ہی خاک میں مل گئی ہیں میں نے اس کالم میں جن ”چاچوں“ کا ذکر کیا ہے یہ سب اپنی جماعتوں کے وفا ار ہیں اور ان پر لوٹ کھسوٹ کا بھی کوئی الزام نہیں ہے چنانچہ عوام ان سے محبت کرتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری سیاسی جماعتیں آنے والے انتخابات اس قسم کے ”چاچوں“ کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سامنے لائیں گی کہ کسی جماعت کی ساکھ انہی لوگوں سے قائم ہوتی ہے۔
تازہ ترین