• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ سب کا ہمسایہ ہے اور بعض مقامات پر ہمسائے سے بڑھ کر شراکت دار بھی ہے۔ ایسا شراکت دار جو زیادہ تگڑا ہو مگر بد قسمتی کی بات ہے کہ عشروں سے موجود پاکستانی کمیونٹی نے نہ تو امریکہ میں بطور امریکی اپنی ایسی شناخت قائم کی کہ جو ہزاروں کلو میٹر دور موجود پاکستان کے لئے فائدہ مند ہوتی اور شناخت تو بہت دور کی بات ہے وہ تو امریکی معاشرے میں ان کے ہمسائے کا بھی کردار حاصل نہ کر سکے۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی کی خوشی کے مواقع ہوں یا خدانخواستہ کوئی غمی ہو، عام امریکی ان کے امور سے غافل ہیں اور یہ غفلت لاتعلقی کو جنم دیتی ہے جو کہ اب بہت توانا ہو رہی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہاں پر موجود پاکستانی کمیونٹی کے افراد متحرک نہیں ہیں، اگر متحرک ہیں مگر اپنی کمیونٹی کی حد تک متحرک ہیں۔ پاکستانی سفارتخانوں سے پردیسی پاکستانیوں کو ہر جگہ پر شکایات ہیں سو یہاں بھی ہیں مگر امریکہ کی اہمیت کے پیش نظر معاملہ صرف سفارتخانے کی حد تک نہیں چھوڑا جانا چاہئے بلکہ اس کے لئے علیحدہ سے حکمت عملی تیار کرنا چاہئے۔ پاکستان کے بہت سے لوگ جو متحرک ہیں ان کو درست سمت دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ میں جن دنوں امریکہ تھا، وہاں کے مقامی گوروں سے ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ جاری رہا کہ بہت کم پاکستانی امریکیوں سے ملاقات ہو سکی بلکہ نہ ہونے کے برابر رہی لیکن کچھ افراد کا نام سنا ضرور ہے کہ ان افراد کو خود بھی اپنی سرگرمیوں میں جدت لانا چاہئے کہ امریکی معاشرہ متوجہ ہو اور حکومت کو بھی ان سے روابط بڑھا کر ریاستی سطح پر معاملات طے کرنا چاہئیں۔ مثلاً نیویارک میں پاکستان ڈے پریڈ ہوتی ہے۔ اچھا خاصا انتظام کیا جاتا ہے۔ وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ احمد جان اس کا انتظام کرتے ہیں اور اب تو پاکستان ڈے پریڈ انہی وسائل کے ساتھ جگہ جگہ ہوتی ہے مگر اس کو مزید بہتر اور بااثر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ڈے پریڈ جتنے شہروں میں ہوتی ہے وہاں پر ان کا کوئی مشترکہ تھیم نہیں ہوتا۔ مشترکہ تھیم ہو، اس کو مشتہر کیا جائے تو عام امریکی بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کریں گے۔

امریکی معاشرے کا قابلِ قدر حصہ بننے کیلئے بھارت کے ایک اقدام کی نقل کی بہت ضرورت ہے جو پاکستانی کمیونٹی بااحسن طریقے سے سر انجام دے سکتی ہے۔ بھارت نے امریکی تھنک ٹینکوں میں اپنے افراد کی جگہ بنانے کی غرض سے ان کو تھنک ٹینکوں میں انٹرن شپ دلائی ہے۔ معاوضہ ان کو تھنک ٹینک ادا نہیں کرتے تھے بلکہ بھارت ادا کرتا تھا۔ آج وہ لوگ کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے اراکین پاکستان میں اسکولوں کی حالت پر کام کر رہے ہیں۔ طلحہ خان تو بہت بڑھ چڑھ کر کام کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی طلباء و طالبات کو وہاں پر مواقع دلوائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند ہی برسوں میں یہ کلیدی عہدوں کو سنبھالے ہوئے ہوں۔

نیو جرسی ایڈیسن میں ڈاکٹر صفدر خان جیسے لوگ ہیں جن کو امریکہ اور چین کو اسکالر شپس دینے کی توثیق کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، انہیں سفارتخانے کی جانب سے سوائے سرد مہری کے اور کچھ نہیںملا۔ اسی طرح وہاں پر ایسے لوگ موجود ہیں جو سماجی فلاح کے حوالے سے اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔ پاکستان میں یہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا کہ کسی ریسٹورنٹ کے باہر لکھا ہو کہ جس کے پاس کھانے کو پیسے نہیں وہ آ کر کھا لے اور بچوں کے لئے پیک بھی کروا لے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جب ایک پاکستانی ریسٹورنٹ کے مالک کو یہ کرتے ہوئے دیکھا تو پوری اسٹوری چھاپ دی کہ حیرت ہے کہ یہ کاروبار کیسے کر رہے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کے بقول کما بھی اچھا خاصا رہے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں جن کی مثبت شخصیت اور پہچان بن چکی ہے، کو درست انداز میں استعمال کیا جائے تو کمیونٹی کے بارے میں رائے عامہ بہت مثبت تشکیل پا سکتی ہے۔ مثبت رائے تشکیل دینے کے لئے پوری دنیا میں اہم میڈیم صحافت ہی ہے۔ محسن ظہیر، انور اقبال، فاروق مرزا اس ضمن میں کام بھی کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے نوجوان اور پرانے صحافی حضرات موثر تنظیم سازی کریں۔ معتبر امریکی اخبارات تک رسائی حاصل کریں، یہ سب ممکن ہے، بات کوشش کی ہے۔ میں نے جب سیمینار کا انعقاد کروایا تو وہاں پاکستانیوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ کوئی گورا امریکی ہماری دعوت پر نہیں آتا۔ اس لئے سیمینار نہ رکھیں آپ کی دعوت پر بھی نہیں آئے گا۔ جب سب گورے آ گئے تو ان کو کہا کہ بس محنت اور موضوع میں جان ہونا چاہئے، سب آ جاتے ہیں۔ سب کچھ ممکن ہے۔ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ یہ بات میں نے نیو یارک کے معروف اسکالر جیمس ٹرائوب سے پوچھی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے لوگ کوشش ہی نہیں کرتے۔ کوشش کرینگے تو روابط بنائیں گے۔ اپنی ضرورت ثابت کریں گے تو ہر کوئی آ سکتا ہے مگر یہاں تو آپ کے لوگ باہمی سیاست اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ جگہ پاکستانی سیاست کے لئے نہیں ہے۔ میں اب اس کو کیا جواب دیتا کیونکہ اس دن ہمارے وزیراعظم نے امریکہ میں ایک جلسے سے خطاب کیا تھا جس میں اُنہوں نے ایئر کنڈیشنر ’’اتارنے‘‘ کا اہم ترین اعلان کیا تھا۔ جب اس سطح پر یہ کچھ ہو تو باقی کسی کو کیا کہنا۔

تازہ ترین