• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر پاکستانی کے لبوں پرآج ایک ہی سوال ہے اب کیا ہوگا؟ یہ سوال اس لئے ہے کہ پچھلے پانچ سال میں ملک عزیز کو کچھ اس طرح چلایا گیا ہے جیسے کوئی اپنا حرم چلائے یا دشمن کے علاقے پر فتح کے بعد اس کے ساتھ مال غنیمت جیسا سلوک کیا جائے۔ لڑھکتی لڑکھاتی لنگڑی لولی جمہوریت آج خود اپنے ہی سامنے اپنے ہی سائے کے مقابلے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتی نظر آ رہی ہے۔ جس عدلیہ کو عوام نے انصاف دینے اور دلانے کے لئے سڑکوں پر آ کر بحال کرایا اس کے سامنے عوام کے نمائندے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ہر اوچھا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ آج لوگوں کو ڈر ہے کہ یہی عوامی عدلیہ کہیں نظریہ ضرورت کے جن کو دوبارہ بوتل سے نہ نکال دے۔ آج سب کے مقبول فخرو بھائی بھی عدالت میں پیش ہونے پر مجبور ہو گئے بحیثیت وکیل کے نہیں بلکہ اپنی صفائی پیش کرنے اور اپنے ادارے کو بچانے۔ آج عدالت عالیہ میں معرکہ ہوگا ججوں کا امتحان ہوگا ایک طرف وہ دعوے ہیں کہ انتخابات کو کوئی مائی کا لال نہیں رکوا سکتا اور دوسری طرف انہی ججوں کو یہ فیصلہ دینا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن خود کسی کی ایک ناجائز اولاد تو نہیں۔ فیصلہ تو جج حضرات ٹھیک ہی دیں گے چاہے انہیں فخرو بھائی کو کچھ دن کے لئے چھٹی پر ہی بھیجنا پڑے مگر آج مصلحت سے کام لینے اور نظریہ ضرورت کو قبر سے نکال کر دوبارہ ہماری زندگیوں اور سیاست میں مسلط کرنے اور ایک غلیظ رول دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ الیکشن اپنے وقت پر اور بالکل آزادانہ اور منصفانہ ہونا ضروری ہے مگر آئین کے مطابق۔ ڈرنے اورگھبرانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اگر موجودہ کمیشن غلط بنا ہے تو ٹھیک ہے اسے غلط کہہ کر تحلیل کر دیا جائے اور آئین کے مطابق چیف جسٹس صاحب ایک دفعہ پھر کسی جج کو ایکٹنگ CEC مقرر کر دیں تاکہ وہ کام چلائے اور عوامی نمائندے دوبارہ صحیح طریقے سے کمیشن کی تشکیل کریں۔ کوئی قیامت نہیں آئیگی۔ کوئی چھت کسی کے سر پر نہیں گرے گی۔ آخر حل تو آئینی ہی ڈھونڈنا ہے اور آئینی ہی ہوگا۔ بھلے فخرو بھائی سوچ لیں کہ وہ اس بھاری کام کو اپنی اس کم عمری میں پورا کر سکتے ہیں یا نہیں ان کے پاس بھی ایک راستہ نکل آیا ہے عزت بچا کر کسی نوجوان قیادت کو یہ کام سونپنے کا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب نیا کمیشن تشکیل ہو رہا ہو تو آئین کے مطابق کھلی کچہری میں فخرو بھائی پر جرح بھی ہو اور وہ سوال پوچھے جا رہے ہوں جو اب تک صرف چند خاص لوگوں نے دبا کر رکھے ہوئے ہیں۔ فخرو بھائی بڑے باعزت آدمی ہیں لیکن ہمارے اس معاشرے میں کسی عزت دار کی پگڑی اچھالنے میں کتنی دیر لگتی ہے ان کے چار ساتھی جن کو نہ میں جانتا ہوں اور نہ ہی اکثریت لوگوں کی اور جن کے بارے میں گھر کا بھیدی یعنی خود بابر اعوان فرماتے ہیں کہ وہ مک مکا کے ذریعے آئے ہیں وہ اپنی صفائی خود پیش کریں۔ خبریں تو بہت گردش میں ہیں اور کروڑوں کی سرمایہ کاری کے الزام بھی آنے لگے ہیں۔ اچھا ہو کہ یہ چار کا ٹولہ بھی عوام اور عدلیہ کو مزید مشکل میں ڈالے بغیر خود باعزت طریقے سے گھر چلا جائے اور بغیر وقت ضائع کئے ایک نیا کمیشن بنا دیا جائے۔ ہر خود دار ملک میں خود دار لوگ خود ہی سامنے سے ہٹ جاتے ہیں اگر ان کی ذات پر لوگ سوال اٹھانا یا پتھر مارنا شروع کر دیں۔ مزید اس موضوع پر بعد میں۔
پچھلے ہفتے کئی خبریں اور تبصرے ایسے سامنے آئے کہ ہنسی بھی آئی اور قسمت پر رونا بھی۔ ہمارے بہت ہی مقبول صدر مملکت جناب زرداری کو ایک مخیر شخص نے ایک چھوٹا سا تحفہ لاہور میں دیا ہے۔ ”ایک گھر بناؤں گا تیرے گھر کے سامنے“ کا فلسفہ اپناتے ہوئے رائے ونڈ میں ہی ایک نیا شاہی قلعہ 2 بن چکا ہے جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ بم اور گولی اس پراثر نہیں کرتی۔ ایک مقبول عام لیڈر کو ان چیزوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت۔ دیوار اگر دور ہو تو کوئی بم گھر کو نقصان نہیں پہنچا سکتا دیوار شاید گر جائے۔ خطرہ اگر کسی فوجی حملے کا ہے تو اور بات ہے۔ مگر کسی فوجی حملے کی ایک مقبول صدر کو کیا فکر۔ اگر خود فوج ہی انہیں ہٹانا چاہے تو کیا یہ سچ نہیں کہ ہر وقت ایک فوجی بھرا ہوا پستول کمر میں لگائے جناب صدر کے ساتھ سائے کی طرح رہتا ہے اسے آپ ADC کہیں یا باڈی گارڈ اوراس کے ساتھ ہی باہر کمرے میں ایک ملٹری سیکرٹری بھی موجود ہوتا ہے جو ہر آنے جانے والے کی خبر رکھتا ہے اور پستول تو ان کے پاس بھی ہوتا ہے۔ تو فوج کو بم پروف دیواریں عبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں اگر صدر واقعی مقبول ہے اور عوام کا ساتھ موجود ہے تو کوئی ذی شعور اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا نہ ہی سوچ سکتا ہے۔ اس لئے شاہی قلعہ2- صرف سیاست کیلئے ہے مگر ابھی یہ تو معلوم ہی نہیں وہ کون دل والا ہے جو کئی ارب کی اس جائیداد کو بغیر کسی لالچ کے تحفے میں دیدے وہ بھی ایک رخصت ہوتی غیرمقبول حکومت کے سربراہ کو۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اور ابھی تو FBR اور نیب اور PAC اور کئی ادارے حرکت میں آئیں گے۔ نیب بھی خوب ادارہ ہے اوراس کے سربراہ بھی اچھا مذاق کرتے ہیں۔ ایڈمرل صاحب فرماتے ہیں نیب کو عدلیہ اور فوج کی بھی تفتیش کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ صحیح مگر ساتھ ہی کہتے ہیں جس کھرب پتی نے صدر کو ایک قلعہ تحفے میں دیا ہے اس کے خلاف تمام مقدمات نیب واپس لے رہی ہے۔ چلیں کوئی تو احسان فراموش کیا لکھوں۔ قلم کے ساتھ ظلم کرنے والے کچھ عمر رسیدہ لکھاری جو ایک ادارے سے دوسرے ادارے چھلانگیں لگاتے اور بے خود ہو کر ایسے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں کہ کبھی اپنی چھینکوں سے گورنر ہاؤس کوگرانے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور کبھی انہیں گھر بیٹھے ہزاروں میل دور کے ممولے نظر آنے لگتے ہیں۔ شاید انہیں دن میں ڈراؤنے خواب آنے لگے ہیں ڈر لگتا ہے کہیں گھبراہٹ میں اپنے ہی گھر کی طرف منہ کر کے چھینک نہ مار دیں۔ گورنر ہاؤس تو نہیں گرا مگر ان کا رشوتوں اور انعام و اکرام سے بنا محل نما گھر کہیں سچ مچ ہی نہ گر پڑے اور ساتھ میں کہیں وہ مرسڈیز گاڑیاں جو یا تو رشوت گاہوں میں لگوائے گئے عزیز و اقارب کی ہیں یا پھر ان کے سسرالیوں نے جہیز میں دی ہیں تباہ نہ ہو جائیں۔ دوسروں پر پتھر پھینکنے والے سوچتے بھی نہیں اس عمر میں کیسی ذلتیں اٹھا رہے ہیں۔ بزرگوں کی یہ حالت دیکھ کر خود کو چلّو بھر تیزاب میں ڈبونے کو دل چاہتا ہے۔ بے چارے اپنے کرتوتوں کے مارے بزرگ۔ پچھلے ہفتے لوگوں کی آنکھوں میں دھول اور پوری قوم کو بیوقوف بنانے کا تو ریکارڈ ہی ٹوٹ گیا۔ افسوس ہوا جب ایک اتنے سنجیدہ اور پروفیشنل وکیل اور سیاستدان وسیم سجاد نے عدالت میں یہ بیان دیاکہ بھٹو اور بینظیر کی PPP تو ایک NGO یا ایک کلب ہے جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور جناب زرداری اور بلاول اس کے چیئرمین اور شریک چیئرمین ضرور ہیں مگر اصل میں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور ایک سندھ کے مخدوم جن کے بینک اکاؤنٹ میں اچانک کئی کروڑ روپے آ گئے تھے اور جب ان کے ہاتھوں پکڑے گئے تو وہ پیسے واپس کر کے دوبارہ پاک پوتر ہوگئے تھے۔ دراصل وہ ملک کے کرتا دھرتا ہیں اور ان کی پارٹی یعنی PPPP ایک اصل جماعت ہے۔ اب اس دن دیہاڑے دھاندلی پر تو تبصرہ کرنا بھی ضروری نہیں مگر کچھ قانونی اور مالیاتی سوال ضرور اٹھیں گے۔ اگر تین P والی پارٹی کوئی قانونی تنظیم نہیں ہے تو پھر کروڑوں اربوں کے جو اشتہارات اس پارٹی اور اس کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کی تعریفوں اور توصیف میں سندھ اور وفاقی حکومتوں نے پچھلے پانچ سال میں خرچ کئے وہ کس کھاتے میں گئے۔ آج تک کسی نے چار والیP پارٹی کا نام اور مخدوم صاحب کی تصویر کسی ایسے اشتہار میں نہیں دیکھی تو کیا کوئی عدالت ان حکومتوں سے پوچھے گی کہ ایک NGO کو اتنا کیوں حکومتی خرچہ پر اچھالا گیا اور کیا وہ NGO وہ ساری رقم واپس کرنے کو تیار ہے جو قومی خزانے سے خرچ ہوئی۔ ظاہر ہے ایسا تو ہو نہیں سکتا مگر کم از کم وسیم سجاد جیسے لوگ تو اپنے آپ کو اتنا نہ گرائیں، دوسروں سے تو کسی کار راست کی توقع کرنا ہی بیکار ہے۔
تازہ ترین