• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی امن اور سماجی ترقی کے بین الاقوامی علمبرداروں اور ماہرین کی کوئی ایک عشرے کی برین اسٹارمنگ نے علمی و فکری دنیا میں ’’سلامتی‘‘ کے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے تاریخی اور روایتی تصور کو یکسر بدل دیا۔ اس عالمی اجتماعی فکری کاوشوں نے ’’انسانیت کے تحفظ‘‘ کو اسلحے کی دوڑ کے حامل ’’طاقت کے توازان‘‘ کے روایتی تصور اور عمل کے مطابق ’’سلامتی‘‘ کے تصور کے مقابل ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کا آئینِ نو طرزِ کہن پر بتدریج غالب کرنے کی عالمی کوششوں کا علمی کام مکمل کیا اور اس پر بین الاقوامی اتفاق رائے سے مختلف خطوں میں جنگ و جدل اور ایک سے بڑھ کر ایک بلاخیز اور تباہ کن اسلحے کی ایجاد اور خرید و فروخت کے پُرخطر ماحول میں جاری ہے۔

نام نہاد ’’قومی مفادات‘‘ جن کی تشریح خود طاقتور نیشن اسٹیس کرتی ہیں کی آڑ میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی جاگیر دارانہ اپروچ بین الاقوامی تعلقات کا مرکز و محور بن گئی ہے، جو طاقتور ممالک کو مجرمانہ انداز میں یہ حق دے رہی ہے کہ وہ اپنے سے کمزور ممالک میں بسنے والے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کی بنیاد پر ان کی ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کو غصب کر سکتے ہیں انہیں مسلسل اذیت میں رکھ سکتے ہیں، ان پر اسلحہ بردار اور سیاسی فسطانیت مسلط کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کا تصور ہے کیا؟ آسان ترین اور پاپولر زبان میں روزگار، صحت و خوراک، رہائش و لباس، تعلیم و تفریح، زیادہ سے زیادہ محفوظ قدرتی ماحول، عورت، بچے اور بوڑھے کا احترام و آرام اور تحفظ کو بلاامتیاز، مذہب و نسل و رنگ و علاقہ و لسان یقینی بنانا ہی ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ ہے۔ اگر کوئی نیشن اسٹیٹ (آزاد ریاست) اپنے ہی ریاستی یا حکومتی تعصب سے اپنی ہی ریاست کے کسی مخصوص طبقے کو ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کے دائرے میں آنے والے حقوق سے محروم کر دے، جیسا کہ بھارت میں دلت، مسلمانوں اور عیسائیوں ساتھ بھارتی حکومتوں، غالب طبقات، انڈر ورلڈ کے ڈانز اور ان کے ایجنٹ بھارتی میڈیا کا متعصبانہ رویہ اور سلوک ہے، جو ان کے مقاصد میں کامیابی سے ہندو بنیاد پرستی کے غلبے کے بڑی پارلیمانی قوت بننے سے پوری ری پبلک آف انڈیا میں اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ جہاں تک مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ ہے، جاتے جاتے برطانوی سامراج سے نئی دہلی کو ملے اس ’’تحفے‘‘ میں ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کی حالت کو تو کمزور ترین درجے پر رکھا ہی گیا، کشمیر جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، سلامتی کے روایتی تصور اور آزادی کے لازوال تصور، حقیقت اور تناظر میں کسی قوم کے سب سے بنیادی حق یعنی حقِ خودارادیت (جس کو کشمیر کے حوالے سے بار بار تسلیم کیا گیا) کا بھی مسئلہ ہے۔ اب مودی کی ہندو بنیاد پرست حکومت نے کشمیریوں پر انتہا کے ظلم ڈھاتے ڈھاتے، بھارت میں ہندوتوا کی طاقتور لہر پر سوار ہو کر دوبارہ برسر اقتدار آکر حقِ خودارادیت کے لئے تحریک چلانے اور کمزور ترین انسانی حالت میں مبتلا آزادی کے لئے جانیں، عزتیں اور مال و اسباب کی بیش بہا قربانیاں دیتے کشمیریوں پر دس لاکھ مسلح افواج اور حکمران پارٹی کے ملیٹنٹ ونگ راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں سے حملہ کیا ہے، جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سلگتا بھڑکتا مسئلہ کشمیر پورے عالمی امن کے لئے گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ فلسطین کے بعد کسی بھی علاقے کی ہیومن سیکورٹی پر اتنے ظالمانہ اور شیطانی عمل کی یہ دوسری بڑی مثال ہے جو اسرائیل کے غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے کتنے ہی خوفناک حملوں سے بھی بڑھ کر ہے، ایسے کہ مقبوضہ کشمیر کو پوری دنیا اور بھارت کے مین لینڈ سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ نہیں معلوم کہ زمینی، فضائی، ٹیلی فونک اور انٹرنیٹ سروس سے مقبوضہ کشمیر کو 26روز سے دنیا بھر سے منقطع کرکے اسے مکمل لاتعلق کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ علاقے کو میڈیا، ہنگامی بنیادوں پر انسانی ریلیف پہنچانے والی ایجنسیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے مکمل ناقابل پہنچ بنا کر اسے مکمل طور پر Troops-Lockedکر دیا گیا اور کرفیو سے ہونے والی سونی گلیوں میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے دہشت گرد مکانوں کے شیشے توڑتے فاقہ زدہ اور سہمے شہریوں کو مزید خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر اور کانگریسی رہنما راہول گاندھی کو سرینگر ائیر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ کوئی داخل ہو سکا تو بھارت کانیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، فاشسٹ منتخب وزیراعظم کا دست راست اجیت دوول، جس نے سرینگر کے کرفیو زدہ بازار میں راج کرتے راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کے غنڈوں کے ساتھ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا تاثر دینے کے لئے بند دکانوں کے بازار میں چلتے پھرتے، کھانے کی تصویریں بنوا کر گھٹیا پن کا کھلا ثبوت دیا۔ سوشل میڈیا پر اس کے اس احمقانہ دورے کی وائرل وڈیو نے بھارتی سیکورٹی ایڈوائزری کے لیول کو بے نقاب کر دیا جیسے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35۔اے کی یکطرفہ من مانی تنسیخ نے بھارت میں آئین و جمہوریت کی عملداری کا پردہ چاک کر دیا۔ آج عالمی حالات حاضرہ کا سب سے بڑا سوال یہ بن گیا ہے کہ 26روز سے جاری کرفیو میں مبتلا Troops-Lockedمقبوضہ کشمیر میں 80لاکھ کی آبادی کے ساتھ کیا ہو چکا، کیا ہو رہا ہے؟ کدھر ہے ریڈ کراس انٹرنیشنل، یونیسیف، ڈبلیو ایچ آف، ورلڈ ایمرجنسی فوڈ پروگرام اور خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیمیں؟ امر واقع یہ ہے کہ روایتی لیکن انتہائی بنیادی مسئلہ کشمیر، ایل او سی کی خلاف ورزیاں، رائے شماری، دو طرفہ مذاکرات، شملہ معاہدہ، سیکورٹی کونسل کی قراردادیں، ثالثی، سفارت کاری، روایتی یا ایٹمی جنگ کے خطرات، سب ہی تو مقبوضہ کشمیر کی ہیومن سیکورٹی پر فاشسٹ مودی کے جاری حکومتی حملے کے مقابل ثانوی ہو کر رہ گئے ہیں۔ کیا وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو عالمی امن کے لئے پُرخطر صورتحال انتباہ کرنے کے لئے عالمی سطح پر جو سفارتی مہم شروع کی ہے اس میں یہ واضح کیا جا رہا ہے؟ بھارت کی مذہبی جنونی حکومت مسئلہ کشمیر پر، جو کہ خطے کے ایٹمی ہونے کے بعد (بقول سابق امریکی صدر کلنٹن) ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بن گیا ہے، سیکورٹی کونسل کی 70سالہ قراردادوں کے خلاف مزاحمت کے بعد مقبوضہ کشمیر کی ہیومن سیکورٹی پر جس وحشت ناک طریقے سے حملہ آور ہے جو سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے بعد ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ پر جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر66/290 کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، جس سے پورے جنوبی ایشیا کی ہیومن سیکورٹی جو پہلے ہی پاک بھارت اسلحہ دوڑ اور سلامتی کے باہمی مسلسل خطرات سے کمزور ہو رہی ہے، پر خوفناک جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین